الوداع الوداع یا انکل سام

انکل سام بالآخر بیس سال تک جبراًً براجمان رہنے کے بعد شکستہ دل ہو کر ہزیمت آمیز چہر ے کے ساتھ اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر رخصت ہولیے ان کے بارے میں یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ کھا یا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا یہ جا وہ جا ۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان سے20سال بعد امریکا کا قبضہ ختم ہو گیا اور امریکا نے افغانستان سے انخلاء مکمل ہو نے کی تصدیق کردی ۔ بھئی ان کا قبضہ اس عرصہ میںجما ہی کب تھا کہ قبضہ خالی کر گئے وہ تو بیس سال تک قبضہ اور تسلط جما نے کی سعی لا حاصل ہی کرتے رہ گئے ، اور منہ کی کھا کررہ گئے ۔ جب امریکا نے افغانستان پرحملہ کیا تو طالبان نے دیکھا کہ امریکی زمین پر اتر کر لڑنا نہیں چاہتے کیو ں کہ ان میں اس کی سکت نہیں ہے وہ صرف فضاء سے ہی حملہ آور رہنا چاہتے ہیں چنا نچہ طالبان کے پا س فضائی قوت نہیں ہے اس لیے مقابلہ برابری کی بنیا د پر نہیں ہو سکتا چنانچہ انہوں نے افغان عوام کو امریکی اور اس کے حواریوں کے فضائی حملہ سے محفوظ رکھنے اور افغان سرزمین کی سلا متی کی غرض سے کیوں کہ امریکی طیارے کارپٹ بمباری کررہے تھے روپو ش ہونا ہی حکمت عملی سمجھا ، ان کی صلا حیتوں کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ زیر زمین ہوکر بھی وہ بکھر ے نہیں متحد رہے اور اپنی کما نڈ کے تبع رہ کر مقابلہ کیا امریکی ایجنسیا ں ان کی بو تک نہ سونگھ سکیں حالا نکہ اسامہ بن لادن افغانستان میں نہیں تھا مگر اس کو انہوں نے اپنی چال بازیو ں سے پا کستان میں پا لیا ، طالبان کی قیا دت افغانستان میں ہی براجمان رہی مگر وہ اپنے تسلط اور جدید ترین آلا ت کے باوجو د طالبان کے ٹھکا نو ں کو نہ ڈھونڈپائے جس نے ثابت کیا کہ طالبان ان سے کہیں زیا دہ زیر ک ، سمجھ والے اور ایک اعلیٰ صلا حیت کے مالک ہیں ، اس وقت مغربی میڈیا اور شکست خوردہ قوتیں حقیقی تصویر کا رخ دھندلا کر نے میں مگن ہیں بار بار یہ شوشا چھوڑ رہی ہیں کہ افغانستا ن کی اعلیٰ ترین تربیت یا فتہ فوج
کیا ہوئی اسے تو چٹان بنایا تھا وہ دھو ل کیو ں ثابت ہوئی اس طرح اتحادی اپنی شکست کو عزیمت میں بدلنے کی سیا ہ کاری کررہے ہیں افغان فوج کی شکست بھی انھی کے کھا تے کی ہے کیو ں کہ انھی کی تربیت میں پلی جمی۔امریکانے نائن الیو ن کے واقع کی آڑلے کر افغانستان میں اپناآپریشن سات کتوبر 2001میں شروع کیا تھا طالبان کے زیر زمین چلے جانے کے بعد امریکا تیر ہ سو فوجی لے کر افغانستان میں گھس بیٹھا پھر ایک سال کے اندر اندر فوجیو ں کی تعداد وقتاًفوقتاًامریکا اور اس کے اتحاد ی تعد اد بڑھاتے رہے ۔ اصولی طور پر امریکا کو انخلاء کے لیے طالبان کی بجائے اشرف غنی حکومت سے بات کر نی چاہیے تھی اور ان سے معاہد کر نا چاہیے تھے کیو ں کہ افغانستان پر تو اشرف غنی کی حکومت تھی اور امریکا سمیت دنیا کے دیگر ممالک بھی اس حکومت کو تسلیم کرتے تھے اوراب بھی تسلیم کیے ہوئے ہیں ایسے معاہد ے تو حکومتوںکے درمیا ن ہو اکر تے ہیں طالبان سے معاہد ہ کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اشرف غنی حکومت کے وجو د کو عملا ًتسلیم نہیں کرتے تھے اس لیے اصل قوت طالبان کی طرف ہی رجوع کر نا پڑا ، اب یہ سوال کرنے کی بجائے کہ افغانستان میں ان کی تربیت یا فتہ افغان فو ج ریت کی دیوار کیو ں ثابت ہوئی یہ بتائیں کہ ایک طاقت ور قوت کے ساتھ طالبان کو مٹانے اورٹھکانے لگانے کے لیے وہ بیس سال تک افغانستان میں کیا بھاڑ جھونکتے رہے ان کی اپنی فوج کی اعلیٰ تربیت کیو ں مٹی ہوگئی ۔15اگست کو طالبان کا بل میں داخل ہو گئے تھے اور16اگست کوسلامتی کو نسل کے پند رہ ارکا ن میں سے تیر ہ ارکا ن نے افغانستان سے غیر ملکی فوجو ںکے
انخلا ء کی قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ دو ارکا ن چین اور روس اجلا س سے غیر حاضر رہے ۔ان دو ممالک کی غیر حاضری طالبان سمیت دیگر ممالک کے لیے ایک بڑ ااشارہ ہے چنا نچہ جہاںطالبان کے لیے یہ اشارہ سمجھا جائے کہ اب طالبان کو پھونک پھونک کر قد م رکھنے کی ضرورت ہے وہا ں ان قوتو ں کو جو طا قت کے گھمنڈ میں افغانستان اور دیگر ممالک سے کھیلتی رہی ہیں وہ بھی اب سنبھل جائیں ، اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت تما م عالمی ادارے ایک واحدقوت کے زیر اثر ہیں اسی کی مر ضی منشا ء ہی کا رگر ہو تی ہے ، اقوام متحد ہ نے افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو کودہشت گردی کی خلا ف فوجی آپریشن کرنے کا اختیا ر تفویض کیا تھا چنا نچہ محولہ بالا قرار داد برائے انخلا ء ضروری تھی منظورکرلی گئی اب اس ادار ے کو چاہیے کہ وہ غیر جا نبدار ہو نے کے ناتے یہ جائزہ لے کہ اس کی منظور کے تنائج کس قدر المناک نکلے ہیں ، جبکہ حاصل حصول خاک ہو ا اس کی اجا زت آپریشن نے افغانستان کی سرزمین کو ادھیڑ کر رکھ دیا لاکھوں افغانی دربدر ہوئے اس کے اثرات سے پاکستان بھی بری طرح متاثرہو ا ، ادھر عراق کے معاملے میں تواندھیر ہی مچی ہوئی تھی وہ یہ کہ عراق پر حملے یا وہا ں افغانستان کی طر ز پر فوجی حملے کی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی اجا زت نہیں ملی تھی اس کے باوجو امریکا نے جھو ٹے الزام لگا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی تاہم اقوام متحد ہ کا ادارہ عراق کے معاملے میں بچاری کی تصویر بنا منہ دیکھتا رہا چاہیے تو یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایک غیر جانب دار عنا صر پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن بٹھایاجا ئے جو ان معاملا ت کو حقیقی معنوں میںجائزہ لے کر فیصلہ کرے ادھر حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یا ر نے سابق حکمرانوں کو قتل کر نے کے بارے میں جو اشارہ دیا ہے وہ اس کو سیا سی بیا ن نہیں سمجھ نہ چاہیے جو حالا ت جار ہے ہیں اس میں یہ ممکن ہے کیو ںکہ طالبان کی جیت کو دل سے ہنوز تسلیم نہیں کیا گیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں