بن کھلے مرجھا جانے والا انقلاب

اتوار کو پی ڈی ایم کا کراچی میں جلسہ ہوا وہی جلسہ جس میں خواتین کی شرکت پر پابندی تھی ‘ مقررین نے انقلاب کے لئے لانگ مارچ ‘ دھرنے ‘ جلسے اور جلوسوں کے ہتھیار آزمانے کا اعلان کیا حسب کرم قائد انقلاب مولانا فضل الرحمان کے ولولہ انگیز خطاب نے سماں باندھ دیا۔ قائد محترم میاں نواز شریف کا ویڈیو لنک سے خطاب بھی بے مثال تھا۔ جلسہ سے ایک دن قبل پی ڈی ایم کے قائدین نے پیپلز پارٹی پر تابڑ توڑ حملے کئے ۔ پیپلز پارٹی بھی ایک ایک کرکے حملوں کا جواب دے رہی ہے ۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک بات عرض کرتا ہوں وہ یہ کہ سال 1979ء سے وفاق کے ہر محکمے اور ادارے کا سندھ اور پنجاب سے رویہ مختلف ہے اور اس پر دو آراء بھی نہیں لیکن بلاول بھٹو نے سکھر اور لاہور کے اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے جو کچھ کہا نرم سے نرم لفظوں میں یہ مناسب نہیں ہے ‘ کیوں مناسب نہیں اس بارے تفصیل سے عرض کیا جا سکتا ہے مگر مختصرا دو باتیں اولاً یہ کہ پیپلز پارٹی اطلاعاتی محاذ پر نون لیگ سے لگ بھگ ایک صدی پیچھے ہے ۔ ثانیاً یہ کہ اس کے رہنمائوں کو محکموں اور اداروں کو”رام” کرنے اور ان میں اپنی جگہ بنانے کے گر نہیں آتے ۔ چلیں ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم نے اتوار کوکراچی میں منعقدہ اپنے جلسہ میں ملک کی عمومی صورتحال کا جونقشہ کھینچا اور جس طرح لاکھوں لوگ لے جا کر اسلام آباد میں انقلاب برپا کرنے کی نوید دی اس پر بہت خوشی ہوئی فقیر راحموں رات گئے تک کہتے رہے دیکھا پیپلز پارٹی کے بغیر بھی انقلاب لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ جب تحریک چلے گی تو حکمران اتحاد کے ساتھ پیپلز پارٹی کا بھی صفایا ہو جائے گا اور بھی بہت کچھ کہا اس میں سے بہت کچھ رقم کرنے میں امر مانع یہ ہے کہ پتہ نہیں فقیر راحموں کس وقت یہ کہہ دیں کہ آف دی ریکارڈ گفتگو کو افشاں کرنا صحافتی اصولوں کے خلاف ہے البتہ یہ ضرور بتائے دیتے ہیں کہ فقیر راحموں نے انقلاب کی جدوجہد میں عملی طور پر شرکت کے لئے سو موار کی
صبح اپنا بیگ تیار کر لیا تھا ۔ دو جوڑے کپڑے ‘ چار کتابیں اور موبائل چارجرسنبھال لیا گیا تھا ۔ ہائے مگر دل کے ارمان بیانوں میں بہہ گئے ۔
پی ڈی ایم کے جلسہ کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور نون لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے اس کراچی میں دبنگ انداز میں کہا” ہم مفاہمت یا مزاحمت نہیں 2023ء کے شفاف انتخابات چاہتے ہیں” اس بیان بلکہ ارشاد جاتی امراء میں سمجھنے والوں کے لئے نشانیاں بہت ہیں ان نشانیوں میں اس ملاقات کا کوئی ذکر نہیں جو اتواراور پیر کی درمیانی شب کراچی کے ایک ہوٹل میں جس کی بغلی سڑک ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتی ہے ہوئی تھی۔ امیر مقام بھلے آدمی ہیں کبھی وہ ہمارے دہلوی سرکار کے پستول بدل بھائی ہوا کرتے تھے اس لئے اب بھی ان کی عزت و احترام واجب ہے ۔ خیر یہ مفاہمت اور مزاحمت کی بجائے 2023ء کے انتخابات کو شفاف بنوانے کی یقین دہانی کے طلبگار میاں شہباز شریف ہی اصل قصہ بتا سکتے ہیں ۔ یقیناً یہ اصل قصہ جیالوں کے اس الزام سے مختلف ہو گا کہ نون لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان میاں نواز شریف کی روانگی کے پس منظر میں یہ طے پایا تھا کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں گے ۔ خیر چھوڑیں ہفتہ اتوار کوپی ڈی ایم کے رہنما کراچی میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگر پیپلز پارٹی مارچ میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے میں ساتھ دیتی تو ملک اور عوام کو انصافی حکومت سے نجات مل سکتی تھی لیکن پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر لی۔ غالباً اس ڈیل میں پیپلز پارٹی نے یہ بھی مان لیا کہ خورشید شاہ کی ضمانت نہیں ہوتی تو نا ہو کچھ معززین نہیں نسلی ا نتقام کا نشانہ بناتے ہیں تو بناتے رہیں سوموار کو میاں شہباز شریف نے
ایک بار پھر قومی حکومت کا دانہ بھی ڈالا۔ فرمایا ملک کو درپیش چیلجوں کا حل صرف قومی حکومت ہے۔2023 ء کے شفاف انتخابات چاہتے ہیں ملک کو درپیش چیلنجز کا حل قومی حکومت ہے کوئی ایک جماعت صورتحال کو نہیں سنبھال سکتی”۔ سادہ آسان اور عوامی زبان میں یہ کہہ لیجئے کہ ”وہ پڑا ہے انقلاب” خالص اردو میں ہوں تو ”بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا” اچھا یہ قومی حکومت والا راگ اگر پیپلز پارٹی الاپا ہوتا تو اس وقت طلعت حسین سے استاد مشتاق احمد اور مجاہد اینکر سے عصری صفحات کے رام داس تک نے آسمان سرپر اٹھایا ہوا ہوتا۔ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری نے میاں شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ شہباز شریف سیاست چھوڑ دیں وکیلوں کے ساتھ وقت گزاریں مقدمات کا فیصلہ جلد ہو گا کہنے کو تو وزیر داخلہ نے بھی کچھ کہا ہے لیکن اس کہے کا ذکر رہنے دیجئے۔ یہ اتوار کو ا نقلاب لانے کا بعزم اعلان اور سوموار کو مفاہمت ومزاحمت کی بجائے شفاف انتخابات کا تقاضا ‘ حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مر جھا گئے والا معاملہ ہے ۔ خیر اب کالم کے آخری حصے میں یہ بھی سن لیجئے کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے حکومت کی اولین ترجیح عام آدمی کا تحفظ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام یقینی بنانا ہے ۔ ادب کے ساتھ عرض کروں۔ مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تیرہ ستمبر کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے صدر مملکت چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز پر خطاب فرمائیں گے ۔ کریں خطاب ہمیں اور آپ کو کیا کونسا ان کے خطاب سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی یا اشیائے ضروریہ سستی ہوں گی۔ ویسے آج کل ہمارے سردار عثمان علی خان بزدار بیانوں کے چوکے چھکے مار رہے ہیں کل فرما رہے تھے”کراچی کا ناکام جلسہ عقل و بصیرت سے عاری ‘ کرچی کرچی اتحاد کے لئے نوشتہ دیوار ہے ۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ جس بھی افسرنے یہ بیان لکھا ہے وہ سردار صاحب کو آسان اردو میں سمجھا بھی دے کہ کیا کہا ہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام