افغانستان کا مسئلہ، چند گزارشات

افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔تجزیہ کار مختلف زاویوں سے اپنے افکار ومشاہدات اور تجربات کی روشنی میں نت نئے تجزیات عوام کی نذر کررہے ہیں لیکن ان سارے تجزیا ت میں جو بنیادی سوالات ابھر کر سامنے آرہے وہ یہ ہیں کہ کیا طالبان افغانستان کے اندر ایک وسیع ا لبنیاد حکومت کو تشکیل دے کر بین الاقوامی برادری کے سنگ اپنے سیاسی سفر کو دوام دے سکیں گے؟ کیا طالبان کی سیاسی قیادت اپنے تند و تیز رویوں میں تبدیلی لاکر خواتین کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کے ان خدشات کو دورکرسکیں گے جس کا اظہار وہ مسلسل کرتے رہے ہیں۔ گو کہ طالبان کی سیاسی قیادت اور اسکے ترجمان اپنے مختلف میڈیا بریفنگز اور انٹرویوز میں مسلسل اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ وہ تاریخ سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور وہ عوام ، ملک اور خطے میں استحکام اور پائیدار امن کے قیام کی خاطر بین الاقوامی برادری کے سنگ چلنے کیلئے پوری طرح آمادہ ہیں لیکن اسکے باوجود بین الاقوامی برادری اور خود افغان عوام اس وقت تک اپنے آپ کو اس سوال کا جواب نہیں دے پا سکیں گے جب تک طالبان کی سیاسی قیادت اسکا عملی ثبوت نہ دیں۔ پندرہ اگست سے لے کر اب تک طالبان قیادت کے بیانات کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ انہوں نے نہایت اختیاط کے ساتھ سیاسی بیانات جاری کئے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کے تحفظات کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے کسی بھی لمحے پر ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ طالبان کی موجودہ سیاسی قیادت میں حکومت چلانے کیلئے مطلوبہ سیاسی بصیرت نہیں ہے ۔ یہ ایک طرف اگر طالبان کی سیاسی شعور میں پختگی کا مظہر ہے تو دوسری طرف اسکی بنیادی وجہ طالبان کی وہ سیاسی مجبوری ہے جس کے بنا انکے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے۔اس وقت افغان طالبان کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر وہ دنیا کے ساتھ نہیں چلیں گے تو دنیا اور خاص کر مغربی دنیا انکی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔اور جب تک دنیا انکی حکومت کو تسلیم کرنے سے کترائے گی انکے منفی نتائج ابھر کر سامنے آتے رہیں گے۔ اس وقت افغان حکومت کے تقریبا دس ارب ڈالرسے زیادہ کے ذخائر بیرونی ملکوں میں پڑے ہیں جس کا بیشتر حصہ امریکہ کے بینکوں میں پڑا ہے اور امریکہ نے ان اثاثوں کو منجمد کئے رکھا ہے۔ ان اثاثوں تک انکی رسائی تب ممکن ہوسکے گی جب وہ بین الاقوامی برادری کے سنگ چلنے پر آمادہ ہوجائیں۔پندرہ اگست کے بعد افغانستان سے لاکھوں لوگ نقل مکانی کرکے اپنے گھروں سے بے دخل ہوچکے ہیں جن میں اکثریت ان تعلیم یافتہ اور پیشہ ور لوگوں کی ہے جو اپنے خاندانوں کو لے کر بیرونی ممالک منتقل ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امور ریاست چلانے کیلئے طالبان کو ان تجربہ کار، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی انتہائی ضرورت ہوگی۔طالبان کو ان لوگوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ان کے خاندانوں کیلئے ملک میں حالات سازگار ہیں اور وہ پوری اطمینان کے ساتھ واپس آکر جنگ سے تباہ شدہ ملک کی دوبارہ آبادکاری میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ان لوگوں کے بغیرملک میں سیاسی، معاشی ، عدالتی اور دوسرے ادروں کا قیام حکومت کیلئے یقینا ایک کھٹن مرحلہ ہوگا۔ اس وقت افغانستان کی آبادی تقریبا اٹھتیس ملین ہے۔ایک اندازے کے مطابق اگر حالات یہی رہے تو افغانستان کی آدھے سے زیادہ آبادی کو خوراکی مواد کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور حکومت وقت کو اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے بین الاقوامی برادری اور اداروں کی ضرورت پڑے گی۔ دوسری طرف کابل ایرپورٹ پر دہشت گر تنظیم داعش کی جانب سے حالیہ حملے نے واضح کردیا ہے کہ طالبان کی حکومت کو ملک میں داعش کی طرف سے دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ تب ہی کیا جاسکتا ہے جب طالبان حکومت کو بین الاقوامی برادری کی مکمل حمایت حاصل ہو۔گو کہ ملک کے شمال میں سابق افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے کی قیادت میں اٹھنے والی والی حالیہ مزاحمت کو طالبان اس وقت کوئی حاص اہمیت نہیں دے رہے لیکن یہ طالبان کے مخالفین کیلئے مستقبل میں ایک چھتری ثابت ہوسکتی ہے لہٰذا ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ اس ملک کے عوام کے لئے بالخصوص اور خطے میں پائئدار امن کے قیام کے لئے بالعموم طالبان قیادت کابل میں بننے والی نئی حکومت میں افغانستان کے سارے سیاسی، مذہبی اور سابق جہادی تنظیموں کو ساتھ لے کر چلیں تاکہ افغان عوام کی مرضی کے مطابق ایک ایسی حکومت قائم ہوسکے جو بحیثیت مجموعی افغان عوام کی نمائندہ حکومت کہلاسکے۔تقریبا چار دہائیوں پر محیط خانہ جنگیوں کے بعد افغان عوام کو ایک سنہری موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اسے کسی صورت باہمی اختلافات کی نذر کرکے ضایع نہ کیا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کسی بھی صورت میں مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اگر اس موقع سے بھرپور فائدہ نہ اٹھایا گیا اور ملک میں ایک بار پھر جنگ شروع ہوگئی تو اسکا خمیازہ نہ صرف افغانستان کے عوام بلکہ پورے خطے کو بھگتنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا