Idhariya

پاکستان ہی پر انگشت نمائی کیوں؟

امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا ہے کہ یہ پاکستان کی فوجی حکمت عملی نہیں بلکہ افغانستان کے اندرونی مسائل تھے جو سابقہ افغان حکومت کے خاتمے کا سبب بنے۔واضح رہے کہ ری پبلکن رکن کانگریس مائیکل جی والٹز نے گزشتہ ہفتے امریکی صدر کو ایک خط ارسال کر کے ان پر زور دیا تھا کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کی مبینہ حمایت کے لئے پاکستان پر پابندی لگائیں جنہوں نے اسلام آباد کے تعاون سے کابل پر قبضہ کیا۔ان کے خط پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے کہا کہ امریکی قانون ساز نے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو غلط بیان کیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اسد مجید خان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانوں کے تمام دھڑوں کے درمیان اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہماری پوزیشن ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہمیں تمام افغان فریقوں کو مشترکہ مفاہمت کی ترغیب دینی چاہئے اور ان کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ ایک مشترکہ تفہیم اور ایک جامع حکومت بنانے کی ان کی صلاحیت سے ہی افغان پناہ گزین نہیں بنیں گے۔یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی دو دہائیوں تک افغانستان کے مسئلے کو طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن پاکستان ہمیشہ اس مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیتا آیا ہے امریکی انخلا سے پاکستان کے موقف کی سچائی ثابت ہوگئی ہے۔وقت اور حالات نے پاکستان کے موقف کو صحیح ثابت کردیا ہے۔بقول ایک دفاعی تجزیہ کار”جب امریکی صدر بش نے پہلی مرتبہ جنرل مشرف سے ملاقات کی تو مشرف نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کا سیاسی حل ڈھونڈا جائے، پاکستان اس کے بعد بھی اس بات کا کئی مرتبہ اعادہ کرتا رہا لیکن ہماری نہیں سنی گئی، بالا آخر حالات و واقعات نے پاکستانی موقف کو درست ثابت کیا”۔افغانستان سے امریکی اور عالمی فوج کے انخلاء کے بعد امریکا کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا اور امریکا پر خود امریکا اور دنیا بھر میں اس کی پالیسیوں اور اقدامات پر جس طرح کی تنقید ہو رہی ہے اس کے بعد حسب سابق حالات کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کا پرانا حربہ ہی استعمال ہو گا دنیا اس بات کو ماننے کے لئے بہرحال تیار نہیں کہ دینی تعلیم ادھوری چھوڑ کر مدارس سے اٹھنے والے طالبان دنیا کی بڑی طاقتوں کو کیسے شکست دے سکتے ہیں۔پس پردہ کیا ہوا اس سے قطع نظر ارضی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بے سروسامان طالبان ہی نے امریکا اور عالمی فوج کا مقابلہ کیا اور حیرت انگیز طور پر بیس سالہ جنگ میں ان کا جانی نقصان دشمنوں سے کم ہوا جو از خود اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کی حکمت عملی اور طریقہ حرب دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور آلات بحر وبر اور فضائی قوت رکھنے والوں سے زیادہ موثر اور بہتر ثابت ہوئی۔ جہاں تک دنیا کا مایہ ناز اور طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں کی افغانستان کی سرزمین پر پنجہ آزمائی کا تعلق ہے اس خفیہ جنگ سے انکار ممکن نہیں اس سارے عمل میںاگرچہ ہماری خفیہ ایجنسی سمیت دنیا کی تمام قابل ذکر ایجنسیوں کا کردار رہا لیکن اس کا کوئی ثبوت بہر حال نہیں اور نہ ہی ہو سکتا ہے خفیہ اداروں کا عمل نظر آنے کے باوجود خفیہ رہنا ہی کمال کا عمل ہوتا ہے آئی ایس آئی کے حوالے سابق بھارتی سینئر پولیس آفیسر نے بھارتی ایجنسیوں کو آئی ایس آئی سے ٹیوشن لینے کا مشورہ دیا ہے۔ بھارتی دانشور اور سابق پولیس افسر ڈاکٹر وکرم سنگھ کا بیان ہے کہ انہوں نے آئی ایس آئی کو40سال پہلے بھی دیکھا ہے، وہ کیا تھی اور اب کیا بن گئی ہے۔ڈاکٹر وکرم سنگھ نے کہا کہ آئی ایس آئی نے اپنی تیاری اور انتظامات اتنے پختہ کر لئے ہیں کہ آج سی آئی اے ، کے جی بی اور ایم آئی فائیو سمیت سب اس کا لوہا مانتے ہیں۔بہرحال یہ تو ایک برسبیل تذکرہ بیان کا ذکر تھا ان تمام حالات میں امریکہ اور سی آئی ا ے کی ناکامی ‘ قبل ازیں روس اور کے جی بی کی ناکامی اب موساد ‘ ایم آئی فائیو اور خاص طور پر را کی منصوبہ بندی و حالات کے ادراک میں ناکامی ایسے امور ہیں جس کی بناء پر پاکستان پر کسی نہ کسی حوالے سے تنقید اور دبائو ڈالنے کی سعی ضرور ہو گی لیکن فی الوقت پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کے بغیر اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانا ممکن نہیں توقع کی جانی چاہئے کہ جس طرح پاکستان نے افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے درست مشورے دیئے اور طالبان اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا نیز انخلاء کے عمل میں بھرپور معاونت کی اس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جائے گا اور پاکستان کو مطعون کرنے کی پالیسی میں تبدیلی لائی جائے گی۔ امریکی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی خدمات اور تعاون کو پس پشت ڈالنے کی روش ترک کرے اور عالمی سطح پر پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا جائے اور آئندہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی کی بجائے پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے تعاون و مشاورت سے افغانستان کو مستحکم کرنے کی ذمہ داریوں پر توجہ دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات