Shazray

صدر کا خطاب اور اپوزیشن کی تیاری

پارلیمانی سال مکمل ہونے پر13ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے موقع پر اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ اگر آئینی قانونی اور دستوری حوالے سے ہو تو یہ ان کا حق ہے لیکن ہمارے ہاں صدرمملکت کے خطاب کے دوران شور شرابا اور ایوان کو مچھلی بازار بنانے کا پرانا رویہ ہے اس مرتبہ بھی اس کے اعادے کا خدشہ ہے ۔جس سے احتراز بہتر ہو گا دوسری جانب صدر مملکت کا پارلیمان سے خطاب معروضی اور رہنمائی والا کم اور قصیدہ گوئی زیادہ ہوتی ہے اس طرح کے خطاب کا کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ اس سے ایک آئینی ضرورت پوری ہوتی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ صدر مملکت کا خطاب ایک ہمدرد ناقد اور رہنما کا ہونا چاہئے جس میں خامیوں اور خوبیوں دونوں کا تذکرہ ہونا چاہئے اور آئندہ کا لائحہ عمل دینا چاہئے جس کی روشنی میں حکومت اپنی اصلاح کر سکے۔
حقائق کا درست ادراک اور اس کے تقاضے
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے پشاور ریوائیول پلان کے تحتمنصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کو خبر دار کیا ہے کہ ان منصوبوں پر ٹھوس پیشرفت اور ان کی بر وقت تکمیل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا اور اس سلسلے میں کوتاہی اور سست روی کے ذمہ دارمحکموں اور اداروں کے متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ وزیراعلیٰ نے ان منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے کمشنر پشاور کو فوکل پرسن مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کمشنر پشاور خود ان تمام کاموں پر عملدرآمد کی خود نگرانی کرکے ہر پندرہ دن میں رپورٹ پیش کریں ۔ انہوںنے واضح کیا کہ صرف کاغذی کارروائی سے کام نہیں چلے گا، ہمارے پاس وقت کم ہے اور کام زیادہ، عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے سرکاری محکموں کو سنجیدگی اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور کام کرنے کے روایتی انداز سے ہٹ کر کام کرنا ہو گا ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ سرکاری منصوبوں پر پیشرفت کے حوالے سے بریفنگ میں سب کچھ ٹھیک ہو تا ہے لیکن گرائونڈ پر صورتحال مختلف ہوتی ہے ایسا کسی صورت نہیں چلے گا۔وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بیور کریسی کی بریفنگ کے حوالے سے درست انداز اختیار کیا ہے بیورو کریسی بریفنگ میں سیاہ کو سفید کرنے میں مہارت رکھتی ہے احیائے پشاور کے حوالے سے ان کی لفاظی پرجائیں تو پورا پشاور جدیدیت کا عدیم النظیر نمونہ ہو گا لیکن عملی طور پر جو صورتحال ہے اس کی گواہی زمینی حقائق سے واضح ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے پندرہ روزہ تفصیلات جاننے کا جو طریقہ اپنایا ہے اس سے احیائے پشاور کے منصوبوں اور کام میں تیزی آنے کی توقع ہے اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ اگربیورو کریسی کے دعوئوں کا موقع پر جا کر معائنہ کرنے کا طریقہ کار اپنائیں تو عملی کام میں بہتری اور تیزی آسکتی ہے۔برموقع معائنہ کا طریقہ کار اپنانے سے کام یقینی بنائی جائے گی اور جو تفصیلات دی جائیں گی ان کا حقیقی ہونا مشکوک نہ ہو گا۔
نامناسب طرز عمل
خیبر پختونخوا کے انتظامی محکموں کے افسروں کی جانب سے صوبائی اسمبلی کو اہمیت نہ دینے کا مسئلہ حل نہ ہونا حکومت اور بیورو کریسی میں عدم ہم آہنگی کا عندیہ ہے جو صوبے کے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے مثبت امر نہیں خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر مشتاق احمد غنی نے ڈیپارٹمنٹس کی طرف سے اسمبلی ایجنڈے سے متعلق وزراء کو آگاہ نہ کرنے پر ایک بار پھر برہمی کا اظہار کیا ہے انہوں اپنی گزشتہ تین سالوں کی رولنگ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اگر کسی سیکرٹری نے ان کی رولنگ پر عمل نہیں کیا ہو تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا اس کے بعد کسی ڈیپارٹمنٹ نے عدم دلچسپی ظاہر کی تو اس کے سیکرٹری کی حاضری لازمی ہوگی۔منتخب ایوان میں آنے سے بیورو کریسی کو چڑ نہیں ہونا چاہئے سرکاری افسران ایوان کواور عوامی نمائندے عوام کو جوابدہ ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو اس حوالے سے چیف سیکرٹری سے مشاورت کرکے کوئی بہتر راستہ نکالنا چاہئے تاکہ بار بار اس طرح کی نوبت نہ آئے اور ایوان کا وقار مجروح نہ ہو۔
سیکنڈ شفٹ کے اجراء کا احسن اقدام
صوبے کے سکولوں میں ڈبل شفٹ پروگرام کا اجراء کر دیا کیا۔ پروگرام کے تحت ڈبل شفٹ میں پرائمری سکول کو مڈل، مڈل سکول کو ہائی اور ہائی سکول کو ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا جائے گا۔ ڈبل شفٹ سکول پروگرام فیز 1 صوبے کے16 اضلاع میں شروع کردیا ہے اور فیز2 میں مزید سکول شامل کرکے صوبے کے تمام اضلاع تک اس پروگرام کو تو سیع دی جائے گی صوبے میں شروع شدہ یہ عمل یقیناً ایک مثبت قدم ہے سیکنڈ شفٹ کے اجراء سے داخلوں سے محروم رہ جانے والے یا پھر کسی جگہ کام کرنے والے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ کوشش ہونی چاہئے کہ سیکنڈ شفٹ میں طلبہ کو معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ ان بہتر تربیت بھی کی جائے اور ان کو کسی محرومی کا احساس نہ ہونے دیا جائے۔

مزید پڑھیں:  سرکاری عمارات اور سڑکوں کی مرمت کا معاملہ