آخری سپاہی کا انخلائ

ڈیڈ لائن کی آخری لکیر سے چند گھنٹے کی دوری پر ہی امریکہ کا آخری جہاز آخری فوجی کو لے کر افغانستان کی حدود پار ہوگیا ۔امریکہ نے افغانستان آنے میں بھی عجلت کی تھی اور رخصتی میں بھی عجلت کا پہلو نمایاں رہا ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق آخری جہاز کے کابل ایئر پورٹ سے ٹیک آف کرتے ہی کابل شہر ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھا۔امریکی فوجی کے جہاز میں سوا ر ہو کر اڑان بھرتے ہی طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد فاتحانہ انداز میں ایئرپورٹ میں داخل ہوئے اور مختلف حصوں کا جائزہ لیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ شکست کھا کر جا چکا ہے اور یہ سب افغانوں کی فتح ہے اور دنیا کے لئے سبق بھی ہے تاہم انہوںنے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی قیام کی خواہش ظاہر کی ۔دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن نے انخلاء کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب طالبان کے ساتھ رابطہ دوحہ دفتر کے ذریعے ہی رہے گا۔انہوںنے انخلاء کے مشن کو بہادرانہ اور تاریخی قرار دیا ۔اس طرح بیس سال بعد افغانستان کی امریکی جنگ اپنے انجام کو پہنچ گئی ۔کابل سے امریکی فوجیوں کی اڑانیں بھرنے کے یہ آخری مناظر دہائیوں پہلے سوویت افواج کے ٹینکوں پر دریائے آمو عبور کرنے جیسے ہی تھے ۔دونوں فوجیں واپس لوٹتے ہوئے حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی حاصل کرنے کی ضمانت کے بعد افغانستان کو خالی کر رہی تھیں ۔ سوویت یونین کے آخری حکمران گوروباچوف نے تو افغان مجاہدین سے باضابطہ اپیل کی تھی کہ وہ واپس لوٹتی ہوئی فوجوں پر حملے نہ کریں۔امریکہ کے موجود ہ صدر جوبائیڈن نے طالبان سے اس امر کی باضابطہ ضمانت حاصل کی تھی۔بیس سال پر محیط مار دھاڑ سے بھرپور ”ہالی ووڈ ” کی یہ فلم امریکہ کو بہت مہنگی پڑی ۔بیس سال کی اس جنگ میں آٹھ لاکھ امریکی فوجیوں نے حصہ لیا ۔اس دوران سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دوہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے جبکہ بیس ہزارسے زیاد ہ زخمی ہوئے ۔امریکہ نے یہ جنگ لڑنے کے لئے822ارب ڈالر خرچ کئے ۔یہ محض سرسری اعدادوشمار ہیں ۔ کاغذوں میں دفن اصل حقیقت کچھ وقت گزرنے کے بعد امریکی روایت کے عین مطابق” ڈی کلاسیفائی ”ہو کر دنیا کے سامنے آئے گی اور تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔انخلاء کا یہ عمل جس انداز سے دراز سے دراز تر ہوتا رہا یہاں تک کہ امریکی حکام کے مطابق اب بھی امریکہ کے دو سو شہری افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ امریکہ ہی نہیں اس کے اتحادی اور دست بازو اور ایک جنوبی ایشیائی شہ بالا افغانستان میں دہائیوں تک قیام کے ار ادوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔وہ مارشل
افغان قوم کو فن سپاہ گری سے آشنا کرنے کے نام پر اپنے قیام کو جوازات اور وجوہات کے دلائل کے پرتوں اور پردوں میں چھپائے بیٹھے تھے۔اسی لئے جب عمران خان نے کہا کہ افغانوںنے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں تو اس کی سب سے زیادہ تکلیف بھارت میں محسوس ہوئی کیونکہ امریکہ اگر افغانستان پر حملے کی بارات کا دولہا تھا تو بھارت اس کا شہ بالا تھا ۔اس تشریح کے مطابق بھارت افغانستان کی زنجیروں کا حصہ تھا۔ بیس سال پر محیط دور اگر غلامی تھا تو بھارت کتاب کا مرکزی باب ہے ۔امریکہ نے افغانستان میں مار ہی کھائی اس ریت کی بوری کے پیچھے چھپے بھارت نے حالات کو پاکستان کے خلاف اپنی” ایناکونڈا ” حکمت عملی کے لئے استعمال کیا ۔اژدھے کی طرح پاکستان کے گرد گھیر اڈالنے کی یہ حکمت عملی کچھ وقت تک کامیاب ہوئی مگر امریکی فوج کی رخصتی کے ساتھ اژدھا کئی ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گیا۔اس عرصے میںپاکستان کے لئے مغرب اور مشرق کی
سرحدوں کا فرق ہی ختم ہوگیا ۔یہی نہیں اس حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لئے بحیرہ عرب کے پار بھی ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ خلیجی ممالک پاکستان سے دور ہو کر رہ جائیں ۔ افغانستان سے امریکہ کے آخری سپاہی کے انخلا کے بعد اینا کونڈا پالیسی بری طرح ناکام ہوگئی۔حکمت یار نے بہت اچھے انداز میں بھارت میں پاکستان کی سٹریٹجک ڈیپتھ پالیسی سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی پالیسی میں تبدیلی کا مشورہ دیا ۔بھارت کی ایناکونڈا پالیسی نے افغانستان کو کئی قوتوں کی لڑائی کا اکھاڑہ بنائے رکھا ۔آج بھی افغانستان کبڈی کا میدان ہے ۔مخالف ٹیم کا کوئی رکن جب کبڈی کبڈی کرتا ہوا اس میں قدم رکھتا ہے تو سارے علاقائی کھلاڑی اس کے گرد گھیرا ڈالتے ہیں ۔یہ مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا ۔ اس لئے سب کے لئے بہتر یہی ہے کہ اس پُرخطر مقام کا رخ ہی نہیں کریں ۔امریکہ نے افغانستان میں تین لاکھ فوج بنا کر اس ملک کو دفاعی لحاظ سے مضبوط اور خودانحصار بنانے کا راستہ اپنایا مگرامریکہ کی رخصتی کے بعد یہ نظام زمین بوس ہوگیا ۔اس کاغذی فوج کی حقیقت یوں تو طالبان کی پیش قدمیوں کے دوران عملی طور پر سامنے آئی تھی مگر اب میڈیا میں بھی کئی کہانیاں گردش کرنے لگی ہیں ۔برطانوی اخبار گارڈین کی رپورٹ میںافغان فوج کی تعداد اور استعداد دونوں پر سوال اٹھایا گیا ہے۔جس طرح ہمارے ہاں گھوسٹ سکول اور گھوسٹ استاد ہوتے ہیں امریکہ اور بھارتی ماہرین فن سپہ گری نے افغانستان میں بھی گھوسٹ فوجی گھڑے اور ان کے نام کی تنخواہیں ایک پوری زنجیر میں تقسیم ہوتی رہیں اور اپنے ملک میں نہایت دیانت دار امریکی کنٹریکٹر اور افسر بھی اس بہتی گنگا سے مستفید ہوتے رہے ۔آخری وقت میںفوجی تنخواہ اور کھانے کو ترس رہے تھے۔بیس برس امریکہ نے ایک لمحے اور ایک تاثر کو ٹالنے میں ضائع کئے ۔وہ یہ تھا کہ امریکہ کی افغانستان سے رخصتی میں سیگون یعنی ویتنام کی جھلک نظر نہ آئے اور جنگ کے اس گرد وغبار سے کسی ہوچی مین کی شبیہ نہ ابھرے مگر اس کا کیجئے سیگون بھی زیر بحث آیا اور ہوچی مین بھی۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند