ادھورے پی ڈی ایم کی واپسی

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے ایک بار پھر خاموشی توڑنے اور تعطل ختم کرکے جلسہ گاہوں کا رخ کر لیا ہے ۔واپسی کے سفر کا پہلا پڑائو عروس البلاد کراچی کا جلسہ ٔ عام تھا جس میں ادھورے اتحاد نے شرکت کی ۔پیپلزپارٹی اس بس سے کبھی کی اُتر چکی ہے اور اس کے دوبارہ اتحادی بس پر سوار ہونے کی امید باقی نہیں رہی ۔اس امید کا تعلق پیپلزپارٹی کی مستقبل کی امید سے ہے جس کی ایک جھلک آزادکشمیر کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی قابل ذکر کامیابی کی صورت میں نظر آئی ۔جہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے برعکس پیپلز پارٹی دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی بن کر ابھری اور اب یہ جماعت اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہے ۔گلگت کے انتخابات ہوئے تو بلاول بھٹو زرداری ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے وہ مریم نواز کا سخت گیر بیانیہ چھیننے کے لئے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے ۔ان کا یہ انداز فکر ونظر آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست کی بھی نفی کر رہا ہے اور شایدتلخی ٔ گفتار کے مقابلے میںمریم نواز پر سبقت لے جانے کی بلاول کی اس کوشش کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے ۔اسی لئے ملتان کے ایک جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کو آگے لاکر بلاول کو بتادیا گیا تھا کہ ان کی بات نہ ماننے کی صورت میں ان کی جیب میں زیادہ موثر اورمضبوط کارڈ موجود ہیں۔جس کے بعد بلاول بھٹو کی سیاست کا کانٹا بدل گیا اور ان کے لہجے کی تلخی اور کرختگی کم ہوتی چلی گئی ایک مرحلے پر ان کی لفاظی کا نشانہ عمران خان کی بجائے ن لیگ او رمریم نوا زبنیں۔یوں رفتہ رفتہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی نئی قیادت کے درمیان خوش گوار تعلقات کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی ۔دونوں جماعتوں کی راہیں الگ ہوگئیں ۔ایک دوسرے پر طنز کے تیر ونشتر چلائے جانے لگے اوریوں پیپلزپارٹی کے راستے جدا کرنے سے عملی طور پر پی ڈی ایم کی روح عملی طور پر قفس ِ عنصری پار کر گئی ۔مولانا فضل الرحمان کے لہجے کی گھن گھرج بھی مدھم پڑی گئی۔پیپلزپارٹی کی بے وفائی کا دکھ ان کے لہجے اور جملوں سے عیاں تھا کیونکہ پی ڈی ایم کی قوت کا قابل ذکر حصہ پیپلزپارٹی پر مشتمل تھا اور پیپلزپارٹی سندھ کی حکمران جماعت بھی تھی۔اتحاد کی باقی تمام جماعتیں پورے سسٹم سے باہر اور بارہویں کھلاڑی کی حیثیت رکھتی تھیں۔پی ڈی ایم سے صرف پیپلزپارٹی کا ہاتھ او رساتھ ہی نہیں چھُوٹا بلکہ مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف بھی گھریلو سیاست کی زد میں آکر جیل جا بیٹھے ۔ان کے جیل جا کر خاموش بیٹھنے کے انداز میں ناراضگی واضح طو ر جھلکتی تھی اور یہ ناراضگی حکومت یا عمران خان سے نہیں اپنی ہی جماعت اور اپنے ہی خاندان سے تھیں جہاں ان کو حکومت کی سہولت کاری اور ڈلیو ر نہ کر نے کے طعنے برسرعام دئیے جا رہے تھے۔یہ طعنے مریم نواز کے قریبی لوگوں کی طرف سے دئیے جا رہے تھے۔شہباز شریف مریم نواز کو ڈلیور کرکے دکھانے کا موقع دینے کے لئے خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ مریم نواز کی جملے بازی سے بھی ڈلیور توکچھ نہ ہوا مگر اس اندھادھند فائرنگ میں پیپلزپارٹی طاقت کے مراکز کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلزپارٹی پر ہاتھ ڈھیلا ہوجانے کے کئی مناظر بعد میں دیکھنے کو ملے ۔اب پیپلزپارٹی خود کو متبادل اور مستقبل کی حکمران جماعت کے طور پر پیش کررہی ہے۔مریم نوازگلگت کے بعد سینیٹ اور آزادکشمیر کا انتخاب ہار گئیں جو مسلم لیگ ن کے لئے خطرے کی گھنٹی تھا۔مسلم لیگ ن اپنی سرشت میں کوئی انقلابی جماعت نہیں بلکہ طاقت کی روایتی کھلاڑی ہے اس لئے مریم نواز کے وقتی جذبات سے مغلوب اور ردعمل پر مبنی بیانیہ اس جماعت کے لئے ایک بوجھ سا بنتا جا رہا تھا ۔یہیں سے شہباز شریف فاتحانہ انداز میں دوبار رِنگ میں داخل ہوئے ۔پی ڈی ایم کے اختلافات کی راکھ میں دب کر رہ جانے والی مولانا کی سیاست کی چنگاری دوبارہ سلگ اُٹھی ۔انہیں بھی یاد آیاکہ حکومت گرانے کا ایک اہم کام جو انہوں نے اپنے ذمہ لیا تھاہونا ابھی باقی ہے۔یہ سیاسی راہنما یاتو پیپلزپارٹی کی پچ پر کھیلنے کا فیصلہ کرچکے ہیں یا پھر محمو د اچکزئی کی حد تک مریم نواز کے بیانیے سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں۔محمود اچکزئی کو تو اعتدال اور توازن پر مبنی کوئی بیانیہ پسند ہی نہیں آتا ۔انہیں اس عمر میں بھی جلائو گھیرائو ،پھاٹک ہٹائو کی سیاست ہی پسند ہے حالانکہ اب وہ اقتدار کی راہداریوں کے شناور بن چکے ہیں ۔کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔کراچی جلسے کا حکومت گرانے سے اب کوئی تعلق نہیں تھا یہ لہو گرم رکھنے کا ایک بہانہ تھا ۔اگر پورے پی ڈی ایم کی واپسی ہوتی تو شاید اس مہم میں کچھ جان ہوتی مگر ادھورے اتحاد کی واپسی سے رنگِ محفل جمنا تھا نہ جم سکا۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟