افغانستان حکومت سازی و دیگر امکانات

فتح کابل اور طالبان کی واپسی افغانستان کی حالیہ تاریخ کے انوکھے واقعات ہیں۔ کابل کی فتح کے بعد اگرچہ طالبان قیادت حکومت سازی کی غرض سے دوسرے فریقین کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مصروف ہیں۔ تاہم طالبان قیادت کے زیرِ انتظام افغانستان کی آئندہ حکومت کی نوعیت تاحال غیر واضح ہے۔ مذاکراتی عمل میں سست روی اور بدنظمی کی ایک اہم وجہ عبوری دور کی نازک صورتِ حال ہے۔ ایک جانب سیاسی و نظریاتی اعتبار سے مختلف الخیال فریقین میں اعتماد سازی کا مشکل ترین مرحلہ درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کے امڈتے خطرات ہیں جو ملک سے امریکی اِنخلاء کے ساتھ ہی داعش کی ہلاکت خیز کاروائیوں کی شکل میں ظاہر ہونے شروع ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں باہر سے درآمدہ جنگ کی تباہ کاریاں ہی کیا کم تھیں کہ داعش کی سبک رفتار دبنگ انٹری نے افغانستان سمیت پورے خطے کے نئے ابھرتے منظرنامے میں خوف اور سراسیمگی کے عنصر کو پھر سے داخل کر دیا ہے۔ داعش کے عزائم کیا ہیں؟ دہشت کی علامت یہ عالمی تنظیم افغانستان میں یک مشت کیسے وارد ہوئی؟ اور پھر سب سے اہم یہ کہ یہاں اِس کے سہولت کار کون ہیں؟ امریکی انتظامیہ کابل ائرپورٹ پر پیش آنے والی دہشت گردی کی حالیہ کاروائی کے دوران اپنے شہریوں کی ہلاکت کا حساب داعش کے دہشت گردوں سے بھلے چکتا کرے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان سے اِنخلا کے نازک مرحلے پر دہشت گردی کی امکانی کاروائی کا تدارک آخر کیوں نہ کیا گیا؟ جبکہ یہاں داعش کی موجودگی کا حدشہ پہلے ہی سے ظاہر کر دیا گیا تھا۔ مانا کہ دہشت گردی وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم اس اندھا دھند قتل و غارت کے بھی کچھ متعینہ محرکات ہوتے ہیں۔ ہمیں تو افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورت حال متعدد علاقائی طاقتوں کے درمیان مفادات کے تصادم کی تمہید معلوم ہوتی ہے۔ مفادات کی کھینچا تانی کے اس ماحول میں ایک قوی امکان یہ بھی موجود ہے کہ دہشت گردی بعض قوتوں کے ہاتھ میں محض ایک ہتھیار ہو جو بدلتے احوال میں حسرت و یاس کی تصویر بنی اپنے نئے کردار کی متلاشی ہوں۔ افغان تنازع کے پس منظر میں علاقائی طاقتوں کے درمیان مفادات کا ٹکرا خطے میں ایک نئی گریٹ گیم کا پیش منظر ہے جس کے نمایاں خطوط اطراف میں کم از کم تین ممالک پاکستان، چین اور بھارت کے گِرد کھنچے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ بعض دوسری علاقائی طاقتیں مثلاً ایران، وسط ایشیائی ریاستیں اور روس وغیرہ بھی اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لئے سرگرمِ عمل ہیں، لیکن پاکستان اور چین کے بھارت سے متعلق بڑھتے عدمِ اعتماد نے خطے میں شروع ہونے والی نئی گریٹ گیم کے خدوخال کو کافی حد تک واضح کیا ہے۔ سیاسی و سفارتی کشمکش کے اِس ماحول میں پاک چین مفادات کا اِشتراک خطے میں بھارتی عزائم کے خلاف دونوں ممالک کے اشتراک عمل کے لئے ٹھوس بنیاد فراہم کرتا دکھائی دیتا ہے۔
افغانستان میں تیزی سے بدلتے سیاسی حالات کے تناظر میں پاک چین مفادات کا ایک اہم ترین پہلو وسیع البنیاد نمائندہ حکومت کا قیام ہے۔ افغانستان میں دیر پا قیامِ امن کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ اصل تنازع کے فریق تمام دھڑوں کو حکومت سازی کے عمل میں شریک کیا جائے۔ دہشت گردی کا تدارک خطے کے وسیع تر مفاد کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل ایک اہم وجہ ہے جو خطے میں پاک چین تعاون کے لئے دیرپا بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ افغانستان وسط ایشیا اور اسکی مغربی اطراف میں مشرقی یورپ تک مختصر ترین تجارتی شاہراہ کی تعمیر کے لئے درمیانی واسطہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن مستقبل میں جنوب مشرقی، جنوبی، جنوب مغربی اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان وسیع تر تجارتی تعاون کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان کے وسیع معدنی ذخائر کو افغانستان سمیت پورے خطے کی تعمیر و ترقی کے لئے بروئے کار لایا جائے۔ تاحال افغانستان کے بعض علاقوں میں پائے جانے والے لیتھئیم کے ذخائر چین اور بھارت سمیت متعدد صنعتی ممالک کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ افغانستان کے معدنی ذخائر سے اِستفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں جنگ سے تباہ شدہ اِنفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے۔ یہ مقصد بذات خود متقاضی ہے کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ہم خیال ممالک باہمی اشتراکِ عمل کو بروئے کار لائیں تاکہ افغان بحران کی آڑ میں متحرک دہشت کی علامت قوتوں کا استحصال ممکن ہو سکے۔
پاکستان کی ترقی پزیر معیشت کے استحکام کے لئے افغانستان میں امن ازحد ضروری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ افغانستان میں حالات کا رخ انتہائی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ طالبان قیادت کا پاکستان کی جانب مثبت رجحان اور پھر بدلتے حالات کے تناظر میں پاک چین تعاون کے امکانات نے پاکستان کو بھارت کی نسبت کہیں بہتر مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ہم خطے میں مفادات کے تصادم کی بجائے مفادات کے اشتراک اور ہم آہنگی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ افغانستان میں ابھرنے والی نئی گریٹ گیم میں ہماری شمولیت کا واحد مقصد خطے کی اجتماعی معاشی فعالیت ہونا چاہیے۔ افغانستان سمیت خطے میں مستقل اور دیرپا امن کا قیام ہی وہ راستہ ہے جو ہماری خوشحالی کا ضامن ہے ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے