5 48

وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے

ہم دنیاداروں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کبھی ایسی اُفتاد پڑے گی، ہمیں گزرنا پڑے گا ابتلاء کے ایسے دور سے کہ ہم چھپتے پھریں گے ایک دوسرے سے، نہ گلے مل سکیں گے اور نہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا سکیں گے اور نہ قریب آکر کسی سے دل کا حال کہہ سکیں گے، ماضی میں ہم یہ سب کچھ رسم دنیا نبھانے کیلئے کیا کرتے تھے، مہمان کے استقبال کیلئے اُٹھ کھڑے ہونا، اس کیساتھ مصافحہ کرنا یا اسے بھینچ بھینچ کر گلے لگانا، جزو اخلاق سمجھتے تھے جس کا مقصد ملنے والے سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار ہوتا، اس پر یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا کہ ہم کتنے خوش ہوئے آپ سے ملکر، مگر آج تو ہم کسی سے اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ
گلے لگا کے مجھے پوچھ مسئلہ کیا ہے
میں ڈر رہا ہوں تجھے حال دل سنانے سے
کسی سے مصافحہ یا معانقہ کرنا ہماری معاشرتی اقدار میں شامل تھا اور اپنی بے پناہ محبتوں کے جذبوں کی اس وارفتگی ہی کی بنیاد پر ہم اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کے علاوہ سماجی جانور کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن جس وقت ہماری خواتین نے اپنے آپ کو مادر پدر آزاد ثابت کرنے کیلئے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانا شروع کیا اور ان کی حمایت میں کچھ مردوے بھی انہیں اشرف المخلوقات بنائے رکھنے کی بجائے کتے اور بلیوں جیسے نفس کے پجاری جانور ثابت کرنے کی تائید کرنے لگے تو جلال خداوندی کو جوش آگیا، وہ ملک جسے مملکت خداداد پاکستان کے علاوہ اسلام کا قلعہ کہا گیا، ایسا قلعہ جس کی بنیادیں ”پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الا اللہ” کے کلمہ حق پر استوار ہوئی تھیں، جب وہاں بھی حوا کی بیٹیاں اور حضرت آدم کے ناخلف بیٹے مغرب سے درآمد کیا ہوا یہ نعرہ لیکر ‘میرا جسم میری مرضی’ کا شور مچاتے اسلام آباد کی سڑکوں پر وارد ہوئے تو مظاہر فطرت کے بانی کو یہ بات اسلامی تعلیمات کے برعکس لگی اور اس نے نہ صرف اس نعرے کے داعیوں کو یہ بات یاد کرانا چاہی کہ خالق کن فیکون کی مرضی کیخلاف ایک پتے کو بھی مجال وجرأتِ جنبش نہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم میں کرونا وائرس نامی جرثومے نے یلغار کر کے دنیا والوں کو بتا دیا کہ تم ہوتے کون ہو اپنے جسم پر اپنی مرضی جتانے والے، امانت ہے تمہاری یہ زندگی، مسافرخانہ ہے یہ ساری دنیا، اک سرائے ہے، جہاں شب بسری کیلئے لوگ آتے ہیں اور رات بھر قیام کرکے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں، ہم سب مہمان بن کر آئے تھے یہاں اور تابع فرمان تھے مالک کن فیکون کے حکم کے، کاش ہم اشرف المخلوقات بنے رہنے پر اکتفاء کرتے، اپنے آپ کو اچھا انسان ثابت کرکے دوسروں کا درد بانٹتے، ایک دوسرے کی مدد کو آگے بڑھتے لیکن افسوس کہ ہم ایسا کرنے کی بجائے اول فول کہہ کر اپنے آپ کو اچھا انسان کیا، انسان کہلوانے کا بھی حق نہ ادا کرسکے اور یوں ہمیں یہ بات تسلیم کرنی پڑی کہ
سرائے زیست کا عالم بڑا سنسان ملتا ہے
بڑی مشکل ہے، مشکل سے کوئی انسان ملتا ہے
ہمیں یہ بات بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات ثابت کرنے کیلئے ہم نے میر درد کے اس آفاقی سچ کی تائید کرنی ہے کہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
ہم نے ابتلاء کے اس دور میں کرونا وائرس کی بجائے اس وائرس کے خالق اللہ سے ڈرنا ہے جس کے حکم کے بغیر یہ کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، ہم گناہ گار ہیں، چور چکار ہیں، ذخیرہ اندوز ہیں، ناجائز منافع خور ہیں، سر تا پا گناہوں کی دلدل میں ڈوبے پڑے ہیں، ہم نے اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے علاوہ جہاں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے یا معانقہ کرنے سے گریز کرنا ہے، اپنی کاروباری سرگرمیاں اور دیگر مصروفیات ترک کرکے گھروں کے اندر گوشہ نشین ہوکر رہنا ہے، وہاں ان لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہے جو مستقل یا جاری آمدن کا بس نہیں رکھتے، اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کو دو گھونٹ زندگی پلانے کیلئے روزانہ ایک نیا کنواں کھودتے ہیں، صبح اپنے گھر سے یہ ٹھان کر نکلتے ہیں کہ ‘مل گئی تو روزی ہوگی اور نہ ملی تو روزہ ہوگا، مرا اشارہ ان محنت کشوں کی جانب ہے جسے زمانہ دیہاڑی مار مزدور کہتے ہیں، ابتلاء کا یہ دور ان کیلئے کیسی اُفتاد لیکر آیا ہے، اس کا بیان ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے،
کم کرنا دیہاڑی تے
شامی ویلے آبہناں، شملے دی پہاڑی تے
میں دیہاڑی پہ کام کرتا ہوں اور شام ڈھلے آکر شملہ کی پہاڑی پر بیٹھ جاتا ہوں، ایبٹ آبادی ہندکو کے اس ماہئے کے یہ بول ہر حال میں خوش رہنے والے روز کے روز کنواں کھود کر پانی پینے والے صابر وشاکر کے دل کی پکار ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ کہیں ابتلاء اور امتحان کے اس دور میں وہ رات بھر بھوکا تو سونے نہیں لگا، اگر حیثیت والے ہیں تو ہم نے اس کی خبرگیری ہی نہیں رکھنی بلکہ سہارا بھی بننا ہے اور ہم سے جو بن پڑتا ہے اس آڑے وقت میں اس کی دہلیز تک پہنچا کر اس کے دکھی دل کی دعائیں لینی ہیں کہ شائد اس طرح یہ بلا ٹل جائے جو آج بستیوں کی بستیاں اُجاڑنے ہم تک آن پہنچی ہے
دعا کرو کہ میں اس کیلئے دعا ہوجاؤں
وہ ایک شخص کہ دل کو دعا سا لگتا ہے

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے