بیروزگاری روکنے کیلئے مؤثرلائحہ عمل درکار

کورنا وباء کے باعث اقتصادی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں ، جس کے نتیجے میں لوگوں کی آمدن کم ہوئی اور بے روز گاری بڑھی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق روزگار یا آمدن کے ذرائع کو محفوظ بنانے کیلئے مختلف اقدامات کے باوجود 2020 میں بے روزگار افرادکی تعداد 22 کروڑ تک پہنچ گئی جو 2019 میں 18کروڑ 70 لاکھ تھی۔ آئی ایل اوکے اعداد و شمار کے مطابق وبائی صورتحال سے سب سے زیادہ خواتین اور نوجوان طبقہ متاثر ہوا۔2020 میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کیلئے روزگار کے مواقع 3.9 فیصد جبکہ نوجوانوںکیلئے8.7 فیصد کم ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بے روزگاری سے غربت اور عدم مساوات بھی بڑھ گئی ہے۔ آئی ایل او کے مطابق 2019 اور 2020 کے دوران عالمی سطح پر انتہائی غربت کا شکار افراد کی تعداد میں 3 کروڑ 10 لاکھ تک اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کے باعث بے روزگاری اور غربت کی شرح میں اضافہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق مالی سال 2020-21 میں بے روزگار افراد کی تعدادبڑھ کر62 لاکھ سے زائد ہوئی ہے ، جو سال2019-20 میں 55 لاکھ تھی۔ 2020-21 میں نوجوان طبقہ اور خواتین زیادہ بے روزگاری کا شکار ہوئیں۔ سال 2019-20 اور 2020-21 کے درمیان کاروبارکی بندش سے بے روزگاری اور آمدن میں کمی کے نتیجے غربت کاشکار ہونے والوں کی تعداد میں 90 لاکھ تک اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بنک کے مطابق پاکستان میں کمانے کی عمر تک پہنچنے والی آبادی میں ہر ماہ اڑھائی لاکھ تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ان افراد کو مارکیٹ میں کھپا نے اور روزگار کی شرح مستحکم رکھنے کیلئے ہر سال 14 لاکھ سے زائد اضافی ملازمتوں کی ضرورت ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیںکہ بے روزگار افراد یا لیبر مارکیٹ میں نئے آنے والے نوجوانوں کو کھپانے کیلئے سالانہ20 لاکھ سے زائد ملازمتیں درکار ہیں۔ اگرچہ پاکستان سمیت دنیا کے ہرملک میں حکومتوں کا یہ بنیادی ایجنڈا ہے کہ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں لیکن معاشی بحالی سست روی کا شکار ہونے کے باعث بے روزگار افراد اور لیبر مارکیٹ میں نئے آنے والوں کیلئے روزگار کے مواقع کم ہیں۔ آئی ایل او کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں ویکسین تک محدود رسائی اور مالیاتی عدم توازن سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر آئی ایل او نے ایسا پالیسی لائحہ عمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے جس کے تحت سب کیلئے باعزت روزگار کو یقینی بنایا جاسکے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے تیزتر اور شمولیتی معاشی ترقی بنیادی شرط ہے۔ حکومت کو ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے شمولیتی اقتصادی ترقی کو فروغ دینا چاہئے جو باعزت روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں۔ جیسا کہ انفراسٹرکچر، زراعت، تعمیرات، سیاحت اور ڈیجیٹل معیشت کے شعبے ہیں۔ فوری بنیاد پر سرمایہ کاری میں زراعت، ہائوسنگ انفراسٹرکچر اور سیاحت کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ خاص طور پرکم ہنر مند افرادی قوت کو کھپانے کیلئے زراعت پر مبنی صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ اس وقت زرعی شعبہ کم پیداوار، ناموافق حالات اور صنفی عدم مساوات جیسے مسائل کا شکار ہے۔ اس لئے اس شعبے میں سرمایہ کاری کا رحجان کم ہے۔ حکومت کو سرمایہ کاری کے پیکیج ، تجارت، ریگولیٹری کے نظام اور ٹیکنالوجی کے ذریعے زراعت پر مبنی صنعتوں کو فروغ دینا ہو گا۔ دوسرا، نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے بڑے پیمانے پر معاشی استحکام ضروری ہے۔ زیادہ معاشی خسارہ، مہنگائی اور شرح تبادلہ میں اتار چڑھائو دیر پا معاشی استحکام میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ بجٹ خسارے، افراط زر میں کمی اور شرح تبادلہ میں استحکام برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز کرے۔ اس سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور نجی شعبے کی شراکت پر مبنی اقتصادی ترقی کو بھی فروغ ملے گا۔ تیسرا، آن لائن تجارت کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں ملک بھر میں ٹیلی مواصلات کی خدمات، خصوصاً انٹرنیٹ سہولت کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ای کامرس سے تعلیم یافتہ خواتین اور نوجوانوں کومعمولی سرمایہ کاری سے باعزت روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ حکومت کو ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری یقینی بنائی چاہئے اور ڈیجیٹل معیشت خصوصاً ٹیلی مواصلات میں سرمایہ کاری کیلئے نجی شعبے کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔ دیہی علاقوں میں مقیم نوجوانوں خصوصاً خواتین کو آن لائن کاروبار شروع کرنے کیلئے تکنیکی معاونت درکار ہے۔ اس کیلئے مقامی سطح پر تربیتی مراکزقائم کئے جانے چاہئیں۔چوتھا، ”اپنا روزگار” کے فروغ کے حوالے سے انتہائی غریب طبقے کیلئے گریجویشن سکیمیں بہت موثر ہیں۔ مثلاً سڑکوں و شاہرائوں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے قریب مقیم انتہائی غریب افرادکیلئے میزبانی پرکشش پیشہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو دیہی آبادی کو روزگار کی فراہمی میں ماحول دوست روزگار اور ماحول دوست معیشت پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ یہ اقدام کمزور قدرتی وسائل کو محفوظ بنائے گا اور غریب طبقے کیلئے آمدن کا ذریعہ بھی بنے گا۔ دیہات کی سطح پر غریب طبقے کیلئے گرین گریجویشن پروگرام بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے پیشہ وارانہ، انتہائی ہنرمند، کم ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کیلئے روزگار یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم ہر سال20 لاکھ افرادکو روزگار کی فراہمی کے ہدف کے حصول کیلئے مختلف شراکت داروں،مثلاً وزارتوں، فنی تربیت کے اداروں اور نجی شعبوں کے درمیان مربوط تعاون اشد ضروری ہے۔ (بشکریہ ، دی نیوز، ترجمہ:راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''