Shazray

مہنگائی کی حدود کیا ہیں؟

ملک بھر میں مہنگائی کا جوعالم ہے اس سے یہ سوال تو ابھرتا ہے کہ آخر اس کی حدود کا تعین تو ہونا چاہئے ‘ روز مرہ کی اشیاء کے نرخ جس تیزی سے اوپر جارہے ہیں اور مہنگائی کے گراف پر”پارہ”حیران کن رفتار سے بلندی پرواز کے سابقہ ریکارڈ توڑنے پر بضد ہے ‘ اس سے عام غریب آدمی کی پریشانی یقینی ہے تازہ اطلاعات کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاور میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی وجہ سے عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے ‘ آٹے کی 85کلو بوری کی قیمت میں 400 روپے ا ضافے کی وجہ سے نانبائیوں کو بھی کھل کھیلنے کا موقع ہاتھ آگیا ہے ‘ اور شہر بھر میں روٹی کا وزن کم کرکے انہیں پاپڑ بنا دیا گیا ہے یا پھر ”دوگنے وزن یعنی ڈبل روٹی” کی صورت میں از خود نرخ مقررکرکے بیس روپے میں فروخت کی جارہی ہے اور جسے ڈبل روٹی کہا جارہا ہے اس کا وزن تقریباً ڈیڑھ روٹی کے برابر ہے ‘ اس میں اصولی طور پر نانبائیوں کوکوئی دوش نہیں دیا جا سکتا اس لئے کہ دنیا کا وہ کون عقلمند ہوگا جومہنگا آٹا خرید کر پورے اور مقررہ وزن کی روٹی کم قیمت یعنی نقصان برداشت کرکے فروخت کرنے پر آمادہ ہو گا ‘ جبکہ اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عاید ہوتی ہے جو ہر قدم پر مہنگائی بڑھانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ‘ تیل ‘ گیس ‘ بجلی وغیرہ جیسی بنیادی چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے عوام کو مہنگائی قبول کرنے پر مجبور کرتی رہتی ہے محولہ بنیادی ضروریات کے نرخوں میں مسلسل اضافے کا زندگی کے ہر شعبے پر منفی اثر پڑنا لازمی ہے اس لئے آٹا مہنگا ملے گا تو روٹی سستی ملنے کا امکان کہاں رہتا ہے ‘ تاہم اس حوالے سے ایک اہم نکتہ مگر یہ بھی ہے کہ ایسے مواقع سے دکاندار بھی ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ‘ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی انتظامیہ روٹی کے وزن اور غیر قانونی ڈبل روٹی کی روک تھام کے لئے تو کم از کم ضروری اقدام اٹھائے۔
ڈینگی پھرسے بے قابو
اخباری اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے 19اضلاع میں ایک بار پھر ڈینگی بخار پھیلنے سے صورتحال خاصی تشویشناک ہو گئی ہے ‘ اب تک 59کیس رپورٹ ہو چکے ہیں ملک بھر میں پہلے ہی کورونا قابو میں نہیں آرہا ‘ اور ہسپتال میں زیادہ تر کووڈ19 کے مریضوں کے علاج معالجے کی وجہ سے یہ ہسپتال دبائو میں ہیں جبکہ اب ڈینگی کی ا طلاعات آرہی ہیں ‘ اس سلسلے میں اگرچہ ڈینگی سے تحفظ کے لئے ضروری سپرے کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے چاہئیں تھے مگر لگتا ہے کہ متعلقہ اداروں نے اس جانب بھر پور توجہ نہیں دی اور بروقت سپرے کرکے بیماری کی روک تھام کی فکر ہی نہیں کی ‘ جس سے بالآخر یہ وباء ایک بارپھر آدھمکی ہے ‘ حالات کا تقاضا ہے کہ متعلقہ حکام اس جانب بھر پور توجہ مبذول کرکے نہ صرف ڈینگی کی روک تھام کے لئے سپرے کرائیں بلکہ ہسپتالوں میں ضروری ادویات کی فراہمی بھی یقینی بنائیں تاکہ صورتحال قابو سے باہر نہ ہونے پائے ۔عوام کو بھی خود حفاظتی کے تقاضوں پر عملدرآمد میں کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے اس حوالے سے ماہرین بار بار جن قابل عمل اور آسان بچائوکی تدابیر دہراتے رہتے ہیں کم ازکم ان پر سوفیصد عمل ہونا چاہئے۔
گیس بحران کا خدشہ
ملک بھر میں آئندہ موسم سرما میں گیس بحران کے خدشے اور ایل این جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر حکومت نے گیس کے استعمال کو کم کرنے کے لئے پالیسی ترتیب دینے پر کام شروع کر دیا ہے ‘ خبروں کے مطابق موسم سرما میں بھی تھرمل اور کول پاور پلانٹ چلائے جائیں گے کیونکہ ان پاور پلانٹس کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ماہانہ اربوں روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے جبکہ موسم سرما میں سستی بجلی فراہم کی جائے گی ‘ پاور سیکڑ کا گردشی قرضہ روز بروز بڑھ رہا ہے اور حکومت اسے کم کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے صورتحال یہ ہے کہ ملک میں عموماً گرمی میں بجلی کی مانگ بڑھنے سے جبکہ سردی میں گیس کی مانگ میں اضافے سے ان دونوں موسموں میں عوام مشکلات سے دوچار رہتے ہیں تاہم اب کی بار بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی بھی کمی دیکھنے میں آئی جس سے گیس بحران کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور موجودہ صورتحال میں یہ خدشات یقین میں بدلتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگر گرمی میں گیس کی اس قدر کمی رہی تو آنے والی سردیوں میں تو صورتحال کے ممکنہ بحران میں تبدیل ہونے پر کوئی دو آراء نہیں ہوسکتیں ‘ سردیوں میں صنعتی شعبے اور سی این جی سیکٹر کے ساتھ کیا سلوک روارکھا جائے گا اس حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ‘ تاہم گزشتہ سال کی طرح گھریلو صارفین ایک بارپھر سخت مشکل میں پھنس سکتے ہیں ‘ اس ضمن میں عوام خود عوام کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں کہ بعض لوگ چھوٹے سائز کے کمپریسر لگا کر ہمسایوں کو گیس سے محروم رکھتے ہیں ‘ اس لئے ایسے افراد کے خلاف سخت تادیبی اقدامات ضروری ہیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ