ملا محمدعمر کا گھر لذت آشنائی کا مظہر

طالبان راہنمائوں نے مکمل فتح کے بعد اپنی تحریک کے بانی اورسابق امیر المومنین ملا محمد عمر کے گھر کا دورہ کیا اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی ۔اس کے بعد ملا محمد عمر کے گھر کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں ۔گھر کیا ہے پتھراورگارے سے بنی ہوئی ایک جھونپڑی ہے جس کی چھت پر بھی مٹی ہے اور جس میں واحد لگژری ٹوٹی ہوئی الماریوں پر رنگ وروغن یا کھڑکیوں پر لگے شیشے ہیں۔ان شیشوں کا استعما ل بھی لگتا ہے دفاعی نقطہ نظر سے کیا گیا ہے۔ اس جھونپڑی کا مکین وہ شخص تھا جو افغانستان کی سب سے بڑی اور منظم ملیشیا کا سربراہ تھا ۔جس نے بہت طاقتور وارلارڈز کو افغانستان کے منظر سے ہی غائب کر دیا تھا ۔جس نے معدنی دولت سے مالامال افغانستان کے بڑے حصے پر برسوں ایسی حکومت کی کہ اس کا اشارہ ابرو شاہی فرمان کا درجہ رکھتا تھا اور پھر یہی شخص حکومت ختم ہو تے ہی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر دوبارہ پہاڑوں کی طرف نکل گیا ۔سال دوسال میں دوبارہ ایسی منظم مزاحمت کھڑی کی کہ دشمن دنگ رہ گیا۔یہ شخص چاہتا تو ایک معدنی کان کا ٹھیکہ کسی مغربی کمپنی کو دے کر بیرونی دنیا میں ہی اس کا کمیشن کا حاصل کرتا اور آج اس کے نیویارک سے لندن اور پیرس سے تاشقند تک محلات ہوتے ۔طاقت کے اس مقام پر فائز رہتے ہوئے اس شخص نے بوریا نشینی کو ترجیح دی ۔وہ چاہتا تو اپنی شخصیت کو تراش خراش کر وائرل کرتا کہ دنیا اس کو دیکھنے او رملنے کے لئے بے تاب رہتی مگر اس شخص کو خود کو گمنامی کے پردوں میں لپیٹے رکھا ۔اقتدار کا مدارالمہام ہوتے ہوئے بھی کابل کی رنگینی اور روشنی کا حصہ بننے کی بجائے قندھار میں اپنے مرکز میں بیٹھا رہا ۔ لاتعداد لوگوں نے ملاعمر کی اس کٹیا کی تصویر کوامریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاوس کے ساتھ جوڑ کر سوشل میڈیا پر پھیلایا اور کہا اس جھونپڑی کے مکین نے یہاں ایسی کامیاب منصوبہ بندی کی کہ پرشکوہ قصر سفید کے مکین اس کا مقابلہ نہ کرسکے ۔جنہیں بجلیاں خبر دیتی تھیں وہ اپنے انجام اور جھونپڑی اور محل کے اس فرق کے بارے میں بے خبر نکلے ۔ ایک طرف دنیا سے کٹا ہو اایک شخص جس تک پیغام پہنچنے اور جس کا پیغام کھلی فضا تک پہنچنے میں بھی بلاشبہ کئی روز لگتے ہوں گے۔دوسری طرف جدید اور برق رفتار ٹیکنالوجی کا حامل شخص جو اپنے کمرے میں بیٹھ کر دنیا میں ہونے والی کارروائیوں کو لائیو دیکھنے جیسی سہولیات پرقادرمگر نتیجہ نکلا تو فاقہ کش بوریا نشین نے محلات کے مکین کو شکست دے ڈالی ۔جس پر حضرت اقبال کی نظم طارق کی دعا اندلس کے میدان میںبے ساختہ یا دآتی ہے۔
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
حقیقت میں یہ لذت آشنائی ہے جس نے ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کو مال غنیمت اور کشور کشائی کے شوق سے بیگانہ اور بے نیاز کرکے شہادت کی طلب اور تمنا کا اسیر اور شیدائی بنادیا تھا۔مسلمانوں کے عروج میں اسی کلچر کا بڑا حصہ اورکردار تھا ۔جس ریاست کے آئیڈیل اور راہبر فقر وقناعت کریں وہ ریاست مادی اور فوجی ہر دولحاظ سے ترقی کرتی ہے۔جس ریاست کے والی اور سالار لذت آشنائی سے محروم رہیں اس کاا نجام برا ہو تا ہے ۔ ملا عمر کے گھر کا موازنہ افغانستان کے وارلارڈ ز کے محلات سے کیا جائے تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے ۔طالبان کے شمالی افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مزار شریف میں وار لارڈ رشید دوستم کے محل کی تصاویر اور وڈیو وائرل ہوئی تھیں جہاں طالبان ایک تفریحی دورہ کر رہے تھے۔ایسے نجانے کتنے ہی محلات دنیا کے کس کونے میں اور دریافت ہوں ؟۔اس فرق کے باوجو ملا عمر کے پیروکاروں نے ان محلات کے مکینوں کو خس وخاشاک کی مانند بہایا۔طالبان کی طاقت کا راز ان کا نظریہ ،ان کا جذبہ اور دنیا کی لذتوں اور رنگینیوں سے بے نیازی تھی جس کا واضح ثبوت ملا عمر کی جھونپڑی سے ملتا ہے۔ فقر وقناعت صر ف ایرانی قیادت کا خاصہ ہے ۔ امام آیت اللہ خمینی نے انقلاب کے ذریعے دنیا کی ایک بڑی طاقت امریکہ کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنے کے بعد جو نظام قائم کیا وہ اسلام کے فقر وقناعت سے عبارت تھا ۔حکومت کے رنگوں اور روشنیوں سے دور قُم کی درسگاہ میں ایرانی انقلاب کے بانی او راہبر امام آیت اللہ خمینی کا بسیرا دنیا کو حیران کئے دیتا تھا۔حقیقت میں یہی اسلام کا کلچر ہے اس سے ہٹ کر جو راستہ اپنایا جائے گا وہ حُبِ دنیا اور حُبِ مال کو جاتا ہے اور دنیا اپنے سے محبت کرنے والوں کو مایوس نہیں کرتی ۔دنیا پرستوں کو ہر آسائش مل جاتی ہے مگر وہ تاریخ کو بدلنے اور رقم کرنے اور امر ہوجانے کی لذت سے محروم رہ جاتے ہیں۔دنیا کی پرستش ان سے حریت ِفکر اور قوت اظہار اور انکار چھین لیتی ہے اور وہ چلتی پھرتی لاشوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ملا عمر کے گھر کی تصویروں میں مسلمان حکمرانوںکے لئے سوچ وفکر کا سامان ہے ۔جو جلالة الملک ،صدر مملکت ،شہنشاہ،امیرجیسے القابات کے باعث خبط ِ عظمت کا شکار ہو کر رہ گئے مگر دنیا میں ان کا مقام اور حیثیت کٹی ہوئی پتنگ سے زیادہ نہیں ہو ا کے جھونکے کی زد میں کبھی اس در کبھی اُس دراور یوں دربہ در۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام