ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں نیوز کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتا ہے اور سی پیک میں شمولیت کا خواہاں ہے ترجمان افغان طالبان نے دہشتگردی اور سلامتی سے متعلق پاکستان کی تشویش کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو جن معاملات پر تشویش ہے انہیں دور کیا جائے گا، افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ترجمان طالبان نے کہا کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ ختم ہوگئی اور اب ساری توجہ حکومت سازی پر مرکوز ہے بہت جلد حکومت کا اعلان کریں گے سی پیک کی صورت میں علاقائی ترقی کا جو عالمی منصوبہ جاری ہے اس میں افغانستان کو شامل کرنا علاقائی وجغرافیائی ضرورت کے ساتھ ساتھ افغان عوام کے مسائل میں کمی لانے کا اہم قدم ہو گا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ طالبان کی کابل آمد سے تاایندم مسلسل اس امر کی یقین دہائی کرائی جارہی ہے کہ افغانستان کی سرزمین ماضی کی طرح پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے مزید خطرہ نہیں رہے گا اور اس حوالے سے طالبان اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے ۔پاکستان کافی عرصے سے وسط ایشیا کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہشمند ہے مگر افغانستان کے حالات اس سلسلے میں بنیادی رکاوٹ رہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جب افغان خود اپنے ملک کے معاملات کو سنبھالنے کی پوزیشن میں آئے ہیں تو ہمسایہ ممالک کیلئے یہ امکان بھی پیدا ہوا ہے کہ افغانستان کے مسائل کو حل کر کے علاقائی خوشحالی اقتصادی تجارتی اور علاقائی روابط کو فروغ دے سکیں۔ ان کوششوں کے نتیجہ خیز ثابت ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ افغان خود بھی اس عمل کا حصہ بنیںہم سمجھتے ہیں کہ سب سے ضروری امر افغانستان میں ایک مستحکم اور وسیع البنیاد حکومت کا قیام ہے جس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے حکومت سازی میں تاخیر کے منفی اثرات یہ ہوسکتے ہیں جہاں اس خطے کے ممالک کی بڑی تعداد افغانستان میں استحکام اور امن کی خواہشمند ہے وہیں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو انتشار کے ماحول ہی سے اپنا کھیل جاری رکھ سکتے ہیں۔بہرحال افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے حوالے سے پاکستان کا کردار خوش آئند ہے ۔ افغانستان کی تعمیر نو میں اعانت کا موقع اس خطے کے ممالک کیلئے مل کر کام کرنے کی ایک مشق ثابت ہو سکتا ہے جبکہ افغانستان کے استحکام پر اخراجات کی حیثیت ایسی سرمایہ کاری کی سی ہے جس کے فوائد کئی گنازیادہ ہوں گے۔ اس خطے کے ممالک کو اس سے قبل اس طرح مل کر کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔افغانستان سے امریکی انخلا نے اس خطے کیلئے وسیع تر تناظر میں سوچنے اور کام کرنے کا موقع پیدا کیا ہے۔ اب یہ سبھی کیلئے ضروری ہے کہ اس بہترین مقصد کے لیے مل کر کام کریں خطے کے ممالک اور خود افغانوں کو ہر ممکن طریقے سے یقینی بنانا ہو گا کہ ایسے حالات پیدا نہ ہوں کیونکہ عدم استحکام کے اثرات وسیع ہوتے ہیں اور پورا خطہ اس کی کسی نہ کسی طرح قیمت ادا کرتا ہے۔ طالبان کو اس معاملے میں فکری اور عملی طورپر تیار کرنے کیلئے پڑوسی ممالک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ایسا کرکے ہی افغانستان میں عدم استحکام کا خاتمہ اور خطے میں معاشی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments