Shazray

الیکٹرانک ووٹنگ یا پوائنٹ سکورنگ؟

الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال مسترد کرتے ہوئے اس پر اعتراضات حزب ا ختلاف کے موقف کی تائید کے مترادف ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی گئی تفصیلی رپورٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر 37اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر ای وی ایم کے استعمال کیلئے وقت بہت کم ہے۔الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بیلٹ پیپر کی مناسب رازداری نہیں رہے گی جبکہ ووٹر کی شناخت گمنام نہیں رہے گی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی نہیں روک سکتی۔الیکشن کمیشن کے مطابق زیادہ مشینوں سے ایک روز میں انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا اور مشینوں کی کسی وجہ سے مرمت الیکشن میں دھاندلی کا باعث بن سکتی ہے جبکہ ووٹر کی تعلیم اور ٹیکنالوجی بھی رکاوٹ بنے گی۔الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ای وی ایم پر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے نہیں جبکہ میڈیا این جی اوز اور سول سوسائٹی کو بداعتمادی ہوسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عین وقت پر عدالتی حکم سے بیلٹ میں تبدیلی ہوجاتی ہے اس وقت مشکل پیش آئے گی جبکہ ای وی ایم سے نتائج میں تاخیر ہوسکتی ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سنجیدہ اور قابل توجہ ہیں۔ اس سارے عمل کا مقصد دھاندلی کو روکنا اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو نہ صرف تحفظات ہیں بلکہ وہ اس نظام کو شفافیت کے تقاضوں سے عدم ہم آہنگ سمجھتی ہے جس کے بعد اس نظام کو رائج کرنے کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے البتہ حکومت بضد ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام رائج کیا جائے ۔ الیکشن کمیشن اور حزب اختلاف دونوں کے سنگین تحفظات کے ہوتے ہوئے حکومتی خواہش کے باوجود اسے مروج کرنا ممکن نہیں لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ حکومت ان خامیوں کو دور کرنے اور تحفظات کے ازالے کے لئے کام کرے اور بہر صورت اس کو رائج کرنے کی رٹ چھوڑ دے حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن کی رضا مندی کے بغیر اس نظام کو رائج کرنا قانونی طور پر ممکن ہی نہیں اس کے باوجود بھی اس پر اصرار سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہی کہلائے گی جس کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔
پابندیاں اور خلاف ورزیاں
صوبائی حکومت کی پابندی کے باوجود محلوں میں موجود پرائیویٹ سکولز بدستور دوسرے روز بھی کھلے رہے جبکہ بچوں کو سادہ کپڑوں میں سکولز آنے کی ہدایات کی گئیںسکولوں کو باہر سے تالے لگائے گئے جبکہ اندر بچوں کی پڑھائی جا ری رہی، صوبائی حکومت کی طرف سے کورونا کیسز میں اضافہ کے باعث تعلیمی اداروں کو بند کرنیکی ہدایات جاری کی گئی تھیںنجی سکولوں میں اس طرح کی تعلیم کی قانونی طور پر تو گنجائش نہیں قانون کی اس خلاف ورزی پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے لیکن اگر دوسری طرف دیکھاجائے تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب اس لئے ہیں کہ سوائے تعلیمی اداروں کے دیگر شعبوں میں حکومتی پابندیوں کی پرواہ نہیں کی جاتی اور نہ ہی حکومت پابندیوں پرعملدرآمد کرانے میں سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے سکولوں میں کوشش ہوتی ہے کہ حفاظتی تدابیر کے ساتھ پڑھائی ہو اس کے باوجود سکولوں کی بندش پر ردعمل فطری امر ہے بہرحال حکومت کو اپنے فیصلے کے اطلاق اور بچوں کی تعلیم کے متاثر ہونے دونوں ہی کے حوالے سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمدکی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے کرونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا مذاق بن کر رہ جانا مزید عدم احتیاط کے رویے کا باعث بن رہا ہے جو کوئی خوشگوار امر نہیں۔
تعلیمی اداروں کے لئے ڈریس کوڈ
وفاق کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں اساتذہ کیلئے ڈریس کوڈ لاگوکرے کا اقدام قابل تقلید امر ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق خواتین اساتذہ کے جینزاور ٹائٹس پہننے پر پابندی عائدکردی گئی ہے جبکہ مرد اساتذہ کے جینز اور ٹی شرٹ پہننے پر پابندی ہوگی۔ پردہ کرنے والی خواتین اساتذہ کوصاف ستھرا سکارف اورحجاب پہننے کی تاکید کی گئی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ سارے سکولوںمیں تو نہیں لیکن بعض سکولوں میں مرد و خواتین اساتذہ کسی ڈریس شو کے ماڈلز سے کم نظر نہیں آتے جو استاد کے مقدس پیشے کی توہین ہے مگران کواسی کا احساس نہیں جس سے بچوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا ۔ سرکاری سکولوں کے برعکس بعض بڑے نجی سکولوں میںمکمل فیشن شوہوتا ہے۔حکومت کی جانب سے وفاق کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے لئے جو ڈریس کوڈ متعارف کرایاگیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اسے ملک کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کالجوں اور جامعات میں یکساں طور پرلاگو کیا جائے تاکہ فیشن زدہ تعلیمی اداروںکی اصلاح ہو سکے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں غور و فکر کے بعد کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں فیشن پرستی اور ماڈلنگ کے رجحان کی بجائے بہترتعلیمی ماحول نظر آئے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''