فساد کے دم توڑتے خواب

افغانستان میں بھارت کے دکھ اور غم کم ہونے میں نہیں آرہے ۔ایک کے بعد دوسرا زخم بھارت کو ماتم کدہ بنا دیتا ہے۔پندرہ اگست کو جب پورا بھارت اپنا یوم آزادی منارہا تھا طالبان کابل فتح کرکے اس خوشی کو ماتم اور غم میں بدل دیا ۔بھارتی ٹی وی چینل اپنی آزادی کی خوشیاں منانا بھول گئے او رافغانستان کاغم لے کر بیٹھ گئے ۔اس کے بعد بھارت کی ساری امیدیں وادیٔ پنجشیر سے وابستہ ہو کر رہ گئی ۔بھارت کو امر اللہ صالح اور احمد مسعود کی صورت میں نئے ہیرومل گئے۔بھارت پنجشیر کی مزاحمت کو بڑھا چڑھا کرپیش کرتا رہا ۔ان کا خیال تھا کہ وادی پنجشیر جو ہر دور میں مزاحمت کی علامت رہی ہے اس بار بھی ناقابل تسخیر رہے گی ۔امریکہ اور نیٹو کو شکست دینے والے طالبان پنجشیر کو فتح نہیں کر سکیں گے ۔اس خوش فہمی کی وجوہات امراللہ صالح کی اسی انداز کی یقین دہانیاں اور دعوے تھے جو اشرف غنی نے امریکہ کو کرائے تھے ۔امریکی اشرف غنی کے ان دعوئوں پر یقین کرتے ہوئے ہی بگرام ائر بیس سے رات کی تاریکی میں بھاگ نکلنے پر مجبور ہو ئے تھے ۔پنجشیر جب ناقابل تسخیر رہتی تھی تو اس میں مقامی جنگجوئوں کی بہادری بے جگری سے لڑنے کے ساتھ ساتھ بیرونی عوامل کا گہرا دخل ہوتا تھا ۔اب خطے کے تمام مقامی کھلاڑیوں کا مفاد ایک مستحکم افغانستان میں تھا اور وہ لاشوں اور خون کی تجارت کی بجائے مال واسباب کی تجارت کے قائل ہوچکے ہیں ۔اس لئے امن عمل میں رکاوٹ بننے والوں کے ساتھ اس بار کچھ اچھا ہونے کے آثار نہیں تھے ۔پنجشیر کے عوام امن کی خواہش کے سمندر میں بدامنی اور مزاحمت کا جزیرہ آباد کر نہیں بیٹھ سکتے تھے ۔ایک پاکستانی صحافی نے روتے دھوتے بھارتیوں کو بجا کہا کہ اگر پنجشیر والوں سے اتنی ہی ہمدردی تھی تو نوے سال بوڑھے علی گیلانی کی لاش کے پیچھے فوج کو لگانے کی بجائے پنجشیر بھیج دیتے ۔ظاہر ہے اس سوال کا کیا جواب تھا؟سوائے اونچا بولنے اورچیخنے چلانے کے۔ اس سے دودن پہلے ایک تصویر نے بھونچال برپا کیا تھا ۔آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کابل کی سرینا ہوٹل میں چائے کی پیالی لئے تصویر جب سے عام ہو ئی ہے دہلی میں پہلے سے بچھی ہوئی صف ماتم پرنئی آہ وبکا شروع ہو گئی ۔چائے کابل میں پی جارہی تھی اور اس کی بھاپ دھواں بن کر دہلی میں بلند ہورہی تھی ۔بھارتی حکام اور ٹی وی چینل اور اخبارات اپنے سارے دکھ بھول کر ابھی تک جنرل فیض حمید کی تصویر پر مختلف زاویوں سے تبصرے کر رہا ہے ۔جنرل جی ڈی بخشی جیسے مچھندر بھارتی جنرل کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے ہیں ۔یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب طالبان حکومت سازی کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں جنرل فیص کی کابل میں موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟پھر وہ خود ہی یہ سوال دہراتے ہیں کہ کیا آئی ایس آئی مستقبل کے افغانستان میں کسی رول کی حامل ہوگی؟جنرل فیض حمید نے ہوٹل کی لابی میں غیر ملکی اخبارنویس کے اس سوال کے جواب میں کہ افغانستان میں اب کیا ہوگا کہا کہ فکرنہ کریں سب اچھا ہوگا۔ہم افغانستان کے استحکام کے لئے کام کررہے ہیں۔یہ وہی کابل جسے نریندر مودی کے مشیر قومی سلامتی اجیت دووال نے خالہ جی کا گھر سمجھ رکھا تھا اور آئے روز وہ کابل کے ایوانوں میں نظر آتے تھے ۔اجیت دووال کی اس آمدورفت کا مقصد صر ف پاکستان کو گھیرنے اور قونصل خانوں کے نام پر جاسوسی کے مراکز کی نگرانی تھا ۔کابل حکومت اور امریکہ اس کام میں بھارت کے سہولت کا رتھے ۔اسی لئے بھارت اور اس کے سرپرستوں میں افغانستان میں مستقل قیام کے لئے منصوبہ بندی کر رکھی تھی ۔بگرام ائر بیس جیسے منصوبوں پر اربوںڈالر مختصر قیام کے لئے خرچ نہیں کئے گئے تھے اس سرمایہ کاری سے امریکہ اور بھارت کے افغانستان میں طویل قیام کے ارادوں اور عزائم کا اندازہ ہوتا ہے ۔وقت اس رعونت اور منصوبہ بندی پر خاک ڈال گیا اور جب حالات کا رخ بدلا تو اس منصوبہ بندی کے محرکین کو جوتے اور پتلونیں چھوڑ کر افغانستان سے اُلٹے پائوں بھاگنا پڑا ۔اب بھارتی سٹریٹجک ماہرین اور اجیت دووال دہلی میں حسرت اور یاس کی تصویر بنے کابل میں جنرل فیض کی چائے کی چُسکیوں کو محسوس کرتے ہیں ۔چین کے ایک ٹی وی چینل نے جنرل فیض کی تصویر ابھینندن کے اس جملے کے ساتھ چلائی ہے کہ ” دی ٹی از فنٹاسٹک”۔سوشل میڈیا کی دنیا میں بھارت کو اس تصویر کے ساتھ ٹرول کیا جا رہا ہے۔پچھلے دنوں ایک بھارتی اپنی اینٹیلی جنس کو آئی ایس آئی کی شاگردی کا مشورہ دے رہے تھے ۔جنرل فیض کی کابل میں موجودگی قطعی ناقابل فہم نہیں ۔پاکستان افغانستان کا سب سے قریبی ہمسایہ ہے ۔افغانستان کا عدم استحکام پاکستان کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے ۔افغانستان کے استحکام کے لئے کام کرنا پاکستان کی مجبوری ہے ۔پاکستان کو اس مرحلے پر افغانوں کی مشکلات کو کم کرنا ہے انہیں عالمی تنہائی سے بچانا ہے تاکہ ایک وسیع البنیاد حکومت قائم ہو اور افغانستان دوبارہ عدم استحکام کی راہوں سے دور رہے۔جنرل فیض کے دورے سے بھارت کی جلن ،غصہ اور چیخ وپکار محض حسد کا اظہار ہے ۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے