Idhariya

امریکا و بھارت’ نئے کھیل کی تیاری؟

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد دنیا کے مختلف ممالک بشمول اقوام متحدہ جہاں عوام کو درپیش ممکنہ مشکلات کے حوالے سے رابطے میں ہیں اور امداد کی فراہمی اور افغانستان کے لئے زیادہ سے زیادہ فنڈز اکٹھا کرنے کی تگ ودو میں ہیں وہاں دوسری جانب اس صورتحال سے متاثر ہونے والے دو اہم ممالک امریکا اور بھارت اپنے دائو پر لگے مفادات کے تحفظ کے لئے سرجوڑ کر بیٹھے ہیں امریکی خفیہ ادارے سی آئی کے سربراہ ویلیمز جے برنز افغانستان کی بدلتی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت کا دورہ کیا۔جاری حالات میں ان کا دورہ کسی نئے کھیل کی تیاری کا حصہ ہے یا پھر نئی صف بندی ہو رہی ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے بہرحال طالبان کی نئی عبوری حکومت کے قیام کے پس منظر میں ان کا یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بھارت نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی ہے تاہم امریکی انخلا کے ساتھ بھارت کو بھی اپنا سب کچھ بند کر کے افغانستان سے نکلنا پڑا ہے ان دونوں ملکوں کی ساکھ جس طرح افغانستان میں دائو پر لگی اس کے بعد بھارت کا کھسیانا پن اس کے ذرائع ابلاغ کی زبانی واضح ہے جبکہ برطانیہ نے امریکا کے اب مزید سپر پاور نہ ہونے کا اعلان کیا ۔ اسی طرح دونوں ہی ممالک سب سے زیادہ متاثر ٹھہرتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ہی بھارت بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ وہ اس بات کی توقع کرتا ہے کہ طالبان اپنی سر زمین پر شدت پسندوں کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری جانب انہی دنوںبھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی اپنے روسی قومی ہم منصب نکولائی پاتروشیو سے بھی ملاقات ہوئی ہے واضح رہے کہ افغانستان میں اس وقت جن ممالک کا اثر و رسوخ زیادہ ہے، ان میں روس بھی ایک ہے۔بھارتی حکام ماضی میں یہ کہتے رہے ہیں کہ طالبان کی قیادت کے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے قریبی تعلقات رہے ہیں، اس لیے اس بات کا خدشہ ہے کہ پاکستان طالبان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتا ہے۔یہ پراپیگنڈہ اپنی جگہ لیکن خود بھارت کو بھی یہ پراپیگنڈہ چین لینے نہیں دیتا اور نہ ہی اس کا توڑ را کے پاس ہے وگر نہ افغانستان سے بھارت کو یوں سرپٹ نہ بھاگنا پڑتا ۔ادھر بھارت کے بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے سے بھارت کو مستقبل میں کافی نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے نئی دہلی کو دوطرفہ روابط قائم کرنے کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کرنا چاہیے۔کئی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے لیے مشکل یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ طالبان کی حکومت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا، جیسا کہ اس نے نوے کی دہائی میں کیا تھا کیونکہ نئی افغان حکومت کو بھارت کے اتحادی ملک امریکا نے قانونی جواز فراہم کر رکھا ہے۔دوسری طرف بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں بھارت کے حوالے سے طالبان رہنمائوں کے قدرے متضاد بیانات سے نئی دہلی شش و پنج کا شکار ہے۔ایک مشکل امر یہ ہ بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام سے زیادہ ان کی طرز حکومت اور شریعت کے مطابق نظام حکومت چلانے کا عزم ہے جس کی رو سے اسلامی وحدت اہم ترین ضرورت ہے پاکستان سے طالبان کے تعلقات جو بھی ہوں نظریاتی طور پر پاکستان طالبان کے لئے زیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے جبکہ خطے کے اہم اور ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے بھی پاکستان کی اہمیت مسلمہ ہے بھارت کے ساتھ طالبان کے نہ تو نظریاتی روابط ہو سکتے ہیں اور نہ ہی علاقائی طور پر بھارت کی پاستان کے مقابلے میں اہمیت ہے بھارت کو اس کا اندازہ بھارتی وفد اور طالبان کے دوحہ میں موجود نمائندوں سے رابطہ کے بعد بخوبی ہو چکا ہے بہرحال بھارت کی طالبان اور اسلامی حکومت سے قطعی کوئی دلچسپی نہ ہونا فطری امر ہے بھارت اور امریکا کو افغانستان میں اپنے مفادات عزیز ہیں جن کے تحفظ کے لئے دونوں کے رہنما سر جوڑ کر بیٹھے ہیں مگر ان کو اس امر کی سمجھ نہیںآ تی کہ طالبان سے معاملت کیسے کی جائے امریکا اور بھارت طالبان کے براہ راست دشمن اور افغانستان کی سابق حکومت کے مربی رہے ہیں جس کے دور میں دونوں ممالک سابق افغان حکومت کے سرپرست کا کردار ادا کرتے آئے ہیں جس کا اب دوریوں کا سبب ننا فطری امر ہے ۔خاص طور پر بھارت نے جس طرح افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا اب اس کے لئے ممکن نہیںکم از کم طالبان بھارت کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو جہاں تک بھارتی سرمایہ کاری اور معاہدات کا سوال ہے اس حوالے سے بھی حالات گنجلک ہیں اس صورتحال میں روس کی حمایت حاصل ہو بھی جائے تو بھی اس ثمر آور ہونا مشکل ہے جبکہ امریکا و بھارت کے حوالے سے چین کی پالیسی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امریکا شکست اور بھارت بھاری سرمایہ ڈبونے کے بعد افغانستان میں جس نئی منزل کی تلاش میں ہیں اس سے افغانستان کے امن و استحکام کا سوال اٹھ سکتا ہے جبکہ خطے کے دیگرممالک کے مفادات بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں امریکا اور بھارت کے مفاد میں یہی بہتر ہو گا کہ وہ افغانستان میں کسی نئے کھیل کے آغاز کی بجائے افغانستان میں امن و استحکام کے عمل کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور مفادات کی جو جنگ وہ جیت نہ سکے اس کو حقیقت تسلیم کریں۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند