طالبان کی آمد’ہمارا قصور کیا ہے؟

تمام تر شکوک و شبہات کے بیچ افغان طالبان نے ملا محمد حسن کی سربراہی میں 33 رکنی کابینہ کا اعلان کر ہی دیا۔ کابینہ میں ایک بات کہ خواتین کے لیئے قائم وزارت کا خاتمہ کر دیا گیا جبکہ امر بالمعروف کی وزارت پہلے کی طرح پھر طالبان کابینہ میں موجود ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاھد نے واضح طور پر کہا ہے وزرا یا معاونین دنیا کے باقی ملکوں کی طرح سیاسی قائدین پر مشتمل ہے لیکن وزارتیں اور ادارے پیشہ ور افراد سے ہی چلائیں گے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں عہدوں پر تعیناتی کے لئے خواتین کی موجودگی خارج از امکان نہیں ہے۔ کابینہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ افغانستان بھر سے تحریک کے رہنمائوں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ابھی رہبری شوریٰ کے لئے اراکین کا تعین کرنا باقی ہے۔ بہرحال کابینہ کی طرح وہ مسئلہ بھی امید ہے کہ حل ہو ہی جائے گا۔ لیکن اس سارے عمل کے دوران پاکستانی کچھ زیادہ ہی پرجوش رہے۔ایک طوفان بدتمیزی ملک میں برپا رہا۔افغانستان میں طالبان کیا آئے سوشل میڈیا پر ہم تقسیم ہوکر رہ گئے۔ ایک طبقہ سوشل میڈیا پر ایسے ناچ رہا ہے کہ جیسے کابل ہم نے فتح کرلیا اور ایک طبقہ ایسے ماتم کناں ہے کہ جیسے کابل میں انہیں شکست ہوئی ہو۔ بھائی ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم تو فقط ایک مستحکم پاکستان چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ ہمارے اداروں کو جس طرح تختہ مشق بنایا جا رہاہے حیرت ہوتی ہے۔ چلیں شروع سے شروع کرتے ہیں جب پاکستان نہیں بنا تھا یہاں اس خطہ میں روایتی لڑائیاں دو پایہ تختوں کے بیچ تھیں ایک دہلی اور ایک کابل۔ درہ خیبر سے فوجیں گھس کر دہلی مارچ کرتی تھیں۔ وسطی ایشیا اور جنوب ایشیا کی یہ لڑائیاں چلتی رہیں اور یہ خطہ روس اور انگلستان کے بیچ لڑائیوں کا محور رہا۔ افغانستان میں بادشاہت تھی جب پاکستان بنا۔ افغانستان نے پاکستان کے خلاف پہل ایسے کی کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے قیام کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان کی روز اول سے ایک ہی افغان پالیسی رہی کہ افغانستان دوست رہے اگر دوستی نہیں کرتا تو دشمنی پر نہ اترے۔ انگلستان کے برصغیر چھوڑنے کے بعد افغانستان روس کے رحم وکرم پر تھا۔ جیسے ہی خود افغان بادشاہ ظاہر شاہ کا تخت پاکستان مخالف اس کے اپنے رشتہ دار سردار دائود نے الٹا اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا آغاز کیا اس کے ساتھ ہی روس یکے بعد دیگرے حکومتیں بدلتا رہا۔ افغان رہنمائوں نے افغانستان کو ایک لحاظ سے روسی کالونی بنا دیا تھا۔ بلکہ آخر میں تو روس خود افغانستان کو چلانے کے لئے آیا۔ اچھا جب روس یہ کر رہا تھا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ اور مغرب تالی بجاتا۔ آج جو پاکستان پر الزامات لگ رہے ہیں وہ ان چندعاقبت نااندیشوں کی سوچ کا نتیجہ ہیں کہ جس میں اس وقت کی سیاسی قیادت بھی شامل تھی۔ بہرحال زخمی افغانستان کے وجود سے طالبان کا جنم ہوا اور وہاں عرب دنیا نے اپنا رنگ جمایا جس کا انجام بالآخر گیارہ ستمبر کو ہوا۔ یاد رہے گیارہ ستمبر کے امریکہ پر حملہ میں نہ افغان باشندے تھے اور نہ کوئی پاکستانی۔ اس حملہ کے نتیجہ میں امریکا پوری دنیا کو لے کر افغانستان آیا اور ایک حکومت بنائی کہ جو ان کی موجودگی میں بھی نہیں چل پا رہی تھی۔ بیس برس وہاں بیٹھ کر ہندوستان سمیت کئی ممالک کے ساتھ پاکستان کو کوستے رہے اور افغانستان کے نام پر خود افغانستان کو لوٹتے رہے۔ قصہ مختصر امریکہ نے قطر کو اجازت دی کہ وہ ان کے دشمن طالبان کو جگہ دے تاکہ وہ ان سے بات کر سکیں۔ ان طالبان کے ساتھ کہ جو ان کے دبائو میں آکر پاکستان نے جیلوں میں بند کر دیئے تھے۔ آخر میں پاکستان پر دبائو ڈالا کہ ان طالبان کے ساتھ ان کی بات چیت کرائی جائے تاکہ جن سے انہوں نے حکومت لی تھی ان کو واپس کی جائے۔ پاکستان اس حقیقت کے باوجود کہ بارہا ان کو امریکہ کے کہنے پر ناراض کر چکا تھا جیلوں سے طالبان کو نکال کر دوحا بھیجنے پر مجبور ہوا۔ امریکہ نے ان کے ساتھ مذاکرات کئے اور اس میں اپنے ہی کوششوں سے لائی گئی افغان حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔کیونکہ بقول امریکہ کے افغان حکمران نااہل اور کرپٹ تھے۔ پاکستان سمیت افغانستان کے باقی پڑوسیوں کو بھی اندازہ تھا کہ امریکہ جلدبازی میں نکل کر خود تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران، پاکستان حتیٰ کہ چین تک کے لئے مشکلات چھوڑ کر جا رہا ہے۔ حالانکہ یہی وہ لوگ تھے جو بوریاں بھر بھر کر ڈالرز بیرون ملک منتقل کرا چکے تھے۔ امریکی صدر نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ تو طعنہ بھی مار گئے کہ جب افغان خود نہیں لڑسکتے تو وہ کیا کریں۔ ان کی دیکھا دیکھی بھارت نے بھی طعنے مارنا شروع کر دیئے۔ یہاں تک کہ جس پارلیمنٹ ہائوس کو پاکستان دشمنی میں تعمیر کیا تھا اسی کی ایک معزز خاتون ممبر کو دہلی ائیرپورٹ سے سکیورٹی رسک بتا کر ہندوستان میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ افغانستان کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر جو پاکستان میں تقسیم موجود ہے وہ زمینی حقائق کا ادراک کرنے سے قاصر ہے۔ حقیقت صاف ہے امریکہ سمیت مغرب نے افغانستان کو زخمی کرکے ایک بار پھر چھوڑ دیااوراب ان کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان یہ کر ہی نہیں سکتا۔ پاکستان کی مجبوری ہے کہ اپنے استحکام کے لیئے آگ لگے پڑوس کے گھر کو خاموش بیٹھ کر دیکھ نہیں سکتا کیونکہ پہلے ہی وہاں لگی آگ سے ہمارے مکان کو بھی بارہا شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لیا۔پشاور کی ہر سڑک اور ہر مارکیٹ اس کا گواہ ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے آنے پر حیرت اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ امریکہ اپنے ساتھ فوجیں لے کر آیا، لڑا اور اب جاتے جاتے ہمیں ایک زخمی افغانستان دے کر کہا کہ اسے سنبھالو۔ ہماری حکومت تھی اور ہم نے ان سے واپس لے لی۔ اس میں کسی کے خوش یا خفا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ضرورت ہے تو وہ یہ کہ اب ہماری اور امریکہ کے بیچ لڑائی سے جو زخم لگے ہیں اس کا علاج کیاجائے۔ پاکستان کو اپنی پڑی ہے کہ اگر افغانستان میں امن نہ ہوا تو اپنے گھر کو آگ لگ سکتی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ امریکہ اور بھارت کی طرح ہم تو جہاز میں بیٹھ کر بھاگنے سے رہے اور نہ ہی پاکستان کو افغانستان کی سرحدوں سے دور کہیں اور منتقل کر سکتے ہیں۔اب آپ بتائیں اس میں ہمارا قصور کیا ہے؟

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند