ایک خالص غیر سیاسی کالم

لکھنے والے دوسرے دوستوں کا تو پتہ نہیں ہمارے ساتھ کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ موضوعات کی بھرمار کے باوجود لکھنے کو جی آمادہ نہیں ہوتا۔ فقیر راحموں کہتے ہیں یہ حالات کا جبر و ستم ہے ۔ عین ممکن ہے ان کی بات درست ہو فی الوقت صورت یہ ہے کہ پنجاب کے تیرہ اضلاع میں ٹرانسپورٹ کے لاک ڈائون کی وجہ سے اپنے جنم شہر ملتان میں پھنسا ہوا ہوں ‘ چار ستمبر کی شب پیشگی اعلان کے بغیر پنجاب حکومت نے اچانک صوبے میں انٹر سٹی ٹرانسپورٹ اڈے بند کروا دیئے ۔ اخباری دنیا میں ہونے کے باوجود میں اس اقدام سے لاعلم تھا مقررہ وقت پر بس اڈے پر پہنچا تو لاک ڈائون منہ چڑا رہا تھا۔ جیسے تیسے ملتان پہنچ ہی گیا۔ فقط پیپلز پارٹی کی دو مکالماتی نشستوں میں شرکت اگر وجہ سفر ہوتی تو سفر ملتوی کر دیتا ایک دو گھریلو نوعیت کی ذمہ داریوں سے عبارت کام تھے ۔ پھر امڑی (والدہ) کے شہر جاے کی خوشی ‘ برسوں قبل ایک دوست نے جنم شہر سے میری رخصتی پر ایک تحریر میں لکھا”شاہ جی کی حالت یہ ہے کہ ملتان سے لاہور کی طرف رخصت ہوتے ہیں تو آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے اور ساہیوال تک پیچھے ملتان کی طرف مڑ مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں کوئی واپس لوٹنے کے لئے ا شارہ نہ کر رہا ہو۔” ایک بار ایسا ہوا کہ ملتان سے رخصتی کے وقت بس میں سوار ہوا بس چلنے لگی تو آنکھوں سے رم جھم ساون کی لڑی لگ گئی۔ دوسری طرف کی نشست پر بیٹھے ہوئے مسافر نے بے ساختہ کہا۔ محترم صبر اور حوصلے سے کام لیں کس کی وفات ہوئی ہے کہاں جارہے ہیں؟ رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا ۔ نہیں کسی کی وفات نہیں ہوئی یہ جنم شہر سے جدائی کا دکھ ہے اس شہر میں میری امڑی(والدہ) کی تربت ہے اور پرکھوں کی قبریں میں جب شہر مادر مہربان سے رخصت ہوتا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے اپنا ہی جنازہ کاندھوں پر لئے رخصت ہو رہا ہوں۔ مسافر نے ہمیں حیرانی سے دیکھا پھر زیر لب کچھ کہا۔ اندازہ ہوا کہ کہہ رہا ہے عجیب پاگل آدمی ہے ۔ جنم شہر سے رخصت ہوتے ہوئے بچوں کی طرح رو رہا ہے ۔ ملتان آنا میرے لئے کائنات کی سب سے بڑی خوشی اور اس شہر سے بچھڑنا المیہ سے کم نہیں ۔ گزشتہ ہفتہ بھر سے امڑی کے شہر میں مقیم ہوں۔ دوست ملنے آجاتے ہیں کیونکہ اسٹک کے سہارے چلنے پھرنے میں کچھ دقت محسوس ہوتی ہے ۔ ملتانی منڈی کا کٹھ حسب دستور ہوا اور منڈی کے حافظ سوئے رہے ۔ پروفیسر تنویر خان اور دوسرے دوستوں سے دو تین نشستیں بھی خوب رہیں طالب علم کو اپنا مطالعہ تازہ کرنے اور یادداشت کا امتحان لینے کا موقعہ اکثر مل جاتا ہے ۔
ملتان ملتان ہے ‘ چھ سات ہزار سال کی تاریخ ‘ تہذیب و تمدن کا وارث اور اس سے محبت کی کئی وجوہات ہیں اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ میری امڑی(والدہ) کا شہر ہے میرا اور میرے بہن بھائیوں کا جنم شہر بھی۔ والدین اسی شہر کے قبرستانوں میں آرام کر رہے ہیں اور دوسرے بزرگ بھی۔ سفر حیات کے بہت سارے مہربان دوست اپنی عمر کی نقدی ختم کرکے رخصت ہوچکے ۔ عمر کی نقدی بس ہماری بھی تمام ہونے کو ہو۔ کس کے یا کس موڑ پر تمام ہوجائے اس بار پیشنگوئی ممکن نہیں۔ آج کے اخبارات میں ڈھیر سارے موضوعات ہیں لیکن ان پر لکھنے کو جی نہیں کر رہا۔ گزری شب حساب کتاب لگایاتھا کہ قبلہ مولانا فضل الرحمان کے حالیہ ارشادات پر لکھا جائے ۔ کاغذ قلم لے کر بیٹھا تو ارادہ بدل گیا۔ بالائی سطور میں جو لکھا گیا یہ بلا ارادہ ہے ۔ سیاست عصر پر پھر لکھ لیں گے ۔ ابھی ملتان کی باتیں کرتے ہیں اور ملتانیوں کی دو دن ادھر کی شب ہمارے دوست پروفیسرتنویر خان نے ایک نشست کا اہتمام کیا ۔ عشائیہ اور نشست یعنی ٹو ان ون پروگرام رہا۔ مختلف موضوعات پر چار گھنٹوں کی اس نشست میں خوب باتیں ہوئیں شرکائے نشست نے سوال اٹھائے طالب علم بساط کے مطابق جواب عرض کرتا رہا۔ یہ بھی عرض کیا کہ تقابلی مطالعے کی اہمیت سے اساتذہ اپنے طلباء کو آگاہ کریں یک رخا مطالعہ بند گلی میں قید رکھتا ہے بندے اور سوچ دونوں کو ۔ لازم ہے کہ ہماری نئی نسل دستیاب تاریخ پر سوال اٹھائے ۔ غور و فکر کرے کہ تہتر سالوں کے دوران ہم انسان سازی کا ایک بھی ادارہ قائم کیوں نہیں کر پائے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ مکالمے کی مسلمہ اہمیت سے انکار کو جہل اور مکالمے کے نام پر ملاکھڑوں کو بدترین تعصب سمجھا جانا چاہئے ۔ یہ بھی عرض کیا کہ ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ نصابی تعلیم علم کے دروازے پر لیجا کھڑا کرتی ہے بذات خود علم نہیں ہے ۔ تہذیب نفس اور تربیت میں نصابی تعلیم کا بنیادی کردار ہے لیکن ہمارے ہاں کی نصابی تعلیم تہذیب نفس اور دربیت کی روح سے خالی ہے یہ صرف نوکریوں کے خواہش مند لشکر پیدا کرتی ہے اور لشکری سوچتے سمجھتے کہاں ہیں وہ تو احکام بجا لاتے ہیںہمارا المیہ یہی ہے ایک طرح کے کودن ہم تہتر برسوں میں تیار کرکے مارکیٹ میں ڈالتے آرہے ہیں اور اب یکساں تعلیمی نصاب ہماری اجتماعی قبر کھودے گا۔ خیر قصہ مختصر ہم ابھی امڑی کے شہر میں مقیم ہیں ٹرانسپورٹ لاک ڈائون اٹھے تو رخصت ہوں ۔ گھر اور رزق کی مجبوریاں واپسی کی متقاضی ہیں ورنہ اس جنت نشان جنم شہر ملتان سے جدائی کالے پانی کی سزا جیسی ہے ۔ خیر یار زندہ صحبت باقی اگلے کالم میں سیاسی باتیں کریں گے۔

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل