الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیوں ضروری ہے؟

پاکستان میں اس وقت الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) مسئلہ نمبر ایک بنی ہوئی ہے۔ حکومت آئندہ انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال چاہتی ہے تاکہ پاکستان میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے جب کہ اپوزیشن جماعتیں ای وی ایم کے استعمال کی مخالفت کر رہی ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اپوزیشن سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ای وی ایم کی مخالفت کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کو 37 اعتراضات کی فہرست بھیجی گئی ہے جو اپنی جگہ ایک حیران کن اقدام ہے۔ حیران کن اس اعتبار سے ہے کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی تھا جس نے 2011ء میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا پہلا پروٹو ٹائپ تیار کروایا تھا لیکن آج یہ اس کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ دنیا بھر کے الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کی کوشش کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے رویے سے یوں لگتا ہے جیسے یہ اس فکر سے آزاد ہو۔ پاکستان میں آج تک جتنے انتخابات ہوئی ہیں ان سب پر دھاندلی کے الزامات لگے ہیں ماسوائے 1970ء کے انتخابات کے ۔ اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد وجود میں آنے والے الیکشن کمیشن بھی اپنے اوپر لگنے والے داغ کو نہیں دھو سکا حالانکہ آئینی اعتبار سے پاکستان کا الیکشن کمیشن پڑوسی ملک بھارت کے الیکشن کمیشن سے زیادہ مضبوط ، خود مختار اور طاقتور ہے۔ اگر ہم ہندوستان اور پاکستان کے الیکشن کمیشنز کا تقابلی جائزہ لیں تو الیکشن کمیشن آف کے تقرر کا ادارہ جاتی میکنزم آئین میں موجود ہے جب کہ ہندوستان میں وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو اراکین کا تقرر کرتا ہے۔ پاکستان کے پانچوں اراکین کمیشن کو عدالت عظمیٰ کے جج کی طرح آئینی تحفظ حاصل ہے جب کہ بھارت میں صرف چیف الیکشن کمشنر کو یہ پروٹیکشن حاصل ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان کا الیکشن کمیشن اپنی خود مختاری اور طاقت کا اظہار کرتا ہے، اس کی کارکردگی پر عوام کا اعتماد ہے اور اس کی ساکھ شکوک و شبہات سے بالاتر ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا الیکشن کمیشن اپنی ساکھ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے سنگین الزامات تھے جو بعدازاں جیوڈیشل کمیشن کے روبرو درست ثابت ہوئے۔ چھ انتخابی حلقوں میں سے ایک حلقے کا ریٹرنگ افسر بھی اضافی بیلٹ پیپرز کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ یہ اضافی بیلٹ پیپرز کہاں گئے ، یہ بات آج تک صیغہ راز ہے۔ جب بیلٹ پیپرز کے صاف اور شفاف استعمال کی بابت الیکشن کمیشن پر ہمیشہ انگلیاں اٹھتی آئی ہیں تو اس کو اس بارے میں زیادہ حساس ہونا چاہیے کہ آئینی اعتبار سے وطن عزیز میں شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن الیکشن کمیشن کا رویہ ”سجن بے پرواہ” جیسا ہے۔
ای وی ایم کا استعمال درحقیقت بیلٹ پیپرز کے ذریعے ہونے والی دھاندلی روکنے کی ایک کوشش ہے مگر الیکشن کمیشن خود اس کی راہ میں روڑے اٹکانے میں لگا ہوا ہے۔ ای وی ایم کے بنانے ، محفوظ رکھنے اور استعمال کرنے پر اٹھنے والی لاگت الیکشن کمیشن کا مسئلہ نہیں ہے، یہ اخراجات ریاست پاکستان نے برداشت کرنے ہیں۔ اس کے علاوہ ای وی ایم کے استعمال پر جتنے بھی اعتراضات ہیں وہ فروعی نوعیت کے ہیں ۔ ووٹ کی سیکریسی کو بہانہ بنا کر خواہ مخواہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جا رہا ہے۔ ووٹ کی سیکریسی رکھنا الیکشن کمیشن کے عملے کی ذمہ داری ہے اور انہیں ہر حال میں اس ذمہ داری کو نبھانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن اپنے سٹاف سے اس ضمن میں حلف بھی لے سکتا ہے اور دیگر اقدامات بھی اُٹھا سکتا ہے۔
بھارت جیسے ملک میں جہاں افراد کی سوچ ، آبادی اور اثر ور سوخ جیسے مسائل پاکستان کی طرح کے ہیں لیکن وہاں اگر ای وی ایم کا استعمال کامیابی سے ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیںہو سکتا؟؟ ہندوستان میں پہلی مرتبہ 1982ء میں کیرالہ انتخابات میں ای وی ایم استعمال ہوئی۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ کرنا شروع کیا اور 1989ء میں ای وی ایم کے باضابطہ استعمال کے لیے عوامی نمائندہ ایکٹ میں ترمیم کی گئی ۔
2004ء سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ہندوستان کے ہر الیکشن میں کامیابی سے ہوتا آ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے عزم کی وجہ سے ہندوستان میں منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار ہوئی اور ای وی ایم کے استعمال کا صاف و شفاف الیکشن کے انعقاد میں اہم کردار ہے جس کا کریڈٹ سیاسی جماعتوں سے زیادہ الیکشن کمیشن کو جاتا ہے۔ کیا ہمارا الیکشن کمیشن بھارتی الیکشن کمیشن کی طرح شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہیں اُٹھا سکتا۔ الیکشن کمیشن ای وی ایم کو متعارف کروانے کا سہرا اپنے سرسجاتا اور سیاسی جماعتوں کو اس کے استعمال پر قائل کرنے کی کوشش کرتا لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نہ صرف یہ کہ ای وی ایم کے استعمال کی مخالفت کر رہا ہے بلکہ اُس نے خواہ مخواہ حکومت سے متھا لگا لیا ہے۔ یہ رویہ قطعی طور پر الیکشن کمیشن کو زیب نہیں دیتا۔ اگر حکومت شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے سنجیدہ کوشش کر رہا ہے تو اس کوشش میں الیکشن کمیشن کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کا سوال ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اتفاق رائے کے حصول کے لیے اپوزیشن کو آن بورڈ کرے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرے تو باہمی اتفاق سے پارلیمنٹ متفقہ قانون سازی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''