مخصوص قسم کے رہائشی علاقوں پرمشتمل کینٹ اور محدود پیمانے پرووٹ سے کامیابی پہلے سے بہتر یا بدتر شرح سے ووٹ کا حصول اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا عمل یہ سارے عوامل ایسے ہیں جس کے نتیجے میں ان نتائج کو عوام کی نبض اور خیالات میں تبدیلی اور سیاسی طور پر ہوا کے رخ کا اندزہ لگانے کے لئے بطور فارمولہ استعمال کرنے کی گنجائش موجود ہے چونکہ اس میں ووٹوں کی تعداد نہایت کم ہزاروں میں نہیں بلکہ سینکڑوں میں ہے اس لئے اسے عوام کی قلیل تعداد کی رائے بطور نمونہ استعمال کرکے مقبولیت کی شرح کے حوالے سے بھی رائے قائم ہو سکتی ہے علاوہ ازیں مخصوص علاقے اور اس کی نوعیت کے تناظر میں اسے ایک خاص رجحان ساز تناظر میں بھی دیکھنے کی گنجائش ہے لیکن بہرحال اسے ایک وسیع نمونہ جات اکٹھے کرکے اس سے نتائج اخذ کرنے کے تحقیقی عمل کا حصہ قرار دینے کی گنجائش ہے بھی اور نہیں بھی چونکہ اس میں ہر دو نوعیت کی گنجائش موجود ہے اس لئے اس سے قطعی طور پرکوئی نتیجہ اخذ کرنے سے احتراز بہتر ہو گا البتہ ان انتخابی نتائج سے سوچ کا ایک رخ بہرحال ظاہر ہے جو حکومت کے حق میں نظر نہیں آتا جبکہ مسلم لیگ(ن) کی گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں کارکردگی کے برعکس مثبت اشارے سامنے آئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی بھی انتخابی میدان میں اب کم از کم گمنامی سے نکل آئی ہے دیکھا جائے تو ان انتخابات میں ملی جلی کیفیت رہی اسے تسلیم نہ کرنے کی بہرحال کوئی وجہ نہیں کہ کئی اہم شہروں سے پی ٹی آئی کا صفایا ہو گیا ہے اور مسلم لیگ( ن) کی پنجاب میں بہترین کارکردگی رہی کراچی میں جماعت اسلامی کے اہم امیدواروں کی کامیابی اور حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کی شکست نئے حقائق سامنے لانے کا باعث امور ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے نئے حقائق ہیں جو ان انتخابی نتائج میں ابھر کر سامنے آئے راولپنڈی، ملتان، واہ کینٹ اور ٹیکسلا وغیرہ میں پی ٹی آئی غیر معمولی مقبولیت رکھتی تھی، ان کنٹو نمنٹس میں پی ٹی آئی کی شکست میں مستقبل کے سیاسی قومی منظر نامے کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے ۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں مسلم لیگ(ن) نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کے تمام تر اقدامات سے ووٹر متاثر نہیں ہوا البتہ گوجرانولہ کینٹ میں بری طرح ناکامی کی وجوہات تلاش کرنا ہو گا گوجرانولہ پنجاب میں مسلم لیگ( ن) کی طاقت کا مرکز ہے، اس پس منظر میں اس کنٹونمنٹ سے (ن) لیگ کی شکست اس کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے جماعت اسلامی نے کراچی سمیت ملک کے مختلف کنٹونمنٹ بورڈز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے مجموعی طور پر اس اعتبار سے بہتر ہے کہ ماضی قریب میں مسلسل بری کارکردگی کی وجہ سے اس جماعت کے انتخابی مستقبل کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہو گئے تھے، یہ نتائج غیر معمولی نہیں لیکن حوصلہ افزا ضرور ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی نے کراچی کے بورڈز میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے سیاسی جماعتوں بالخصوص حکمران جماعت کو معمولی اکثریت کے باوجود اپنی کارکردگی اور عوامی جذبات میں تبدیلی کی وجوہات کا جائزہ لینا اور اپنی پالیسیوں میں تبدیلی اس کے حق میں بہتر ہو گا انتخابات ہی عوام کی رائے جاننے کا بہترپیمانہ ہے اس کسوٹی کا نتیجہ ہی مستند ہے بشرطیکہ بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات نہ لگیں۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نے قدرتی طور پر یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ جب چھائونی کے علاقوں میںانتخابی عمل خوش اسلوبی سے انجام پا سکتا ہے تو ملک کے دیگر حصوں میں کیا امر مانع ہے؟ بنیادی جمہوری ادارے آخر کیوں ملک میں مضبوط جڑیں نہیں بنا سکے؟ ہر حکومت بنیادی جمہوریت کا اپنا الگ ہی تصور رکھتی ہے اور اسی کے مطابق پورے سسٹم کو ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم آزادی کے سات عشروں میں بھی بنیادی جمہوری اداروں کا کوئی قابل عمل اور قابل قبول سسٹم نہیں بنا سکے؟ یہ ہماری جمہوری سیاسی جماعتوں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔بنیادی جمہوریت کا تعلق چونکہ فرد کے بنیادی معاملات سے براہ راست ہوتا ہے اس لئے اس نظام کو سماجی اصلاح اور نظام کارکی بہتری کی ضمانت مانا جاتا ہے۔ اس طرح مرکزی اور صوبائی منتخب قیادت کو ملک اور صوبے کے بڑے مسائل پر غوروخوض کا موقع ملتا ہے جبکہ شہری مسائل بنیادی جمہوری اداروں کی ذمہ داری بن جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہوس اختیار اس سسٹم کو پنپنے ہی نہیں دیتا۔ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے ہمارے رہنمائوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنا ہو گی ملک میں پائیدار اور حقیقی جمہوری اقدار کی ترویج اور فروغ کیلئے یہ تبدیلی ناگزیر ہے کنٹونمنٹ ایریا میں پرامن انتخابات کے انعقاد کے بعد اب ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا جلد سے جلد انعقاد حکومت کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے ان انتخابات کے انعقاد میں پہلے ہی بلاوجہ تاخیر درتاخیر ہوتی آئی ہے جسے ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت کے بھی بلدیاتی انتخابات سے فرار سے تعبیر کیا جاسکتا ہے بلدیاتی ا نتخابات کے انعقاد میں مزید تاخیر کی گنجائش اس لئے بھی نہیں کہ اس کے بعد عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہونی ہیں تاخیر کی صورت میں بلدیاتی انتخابات کے مزید طویل تاخیر کا امکان ہے جو ملک اور عوام کے مفاد کے منافی اور آئین کی عدم پابندی کا باعث امر ہو گا حکومت جتنا جلد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی تاریخوں کا اعلان کرے اتنا اچھا ہو گا۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments