Idhariya

لکیر پیٹنے کی روایت کا اعادہ

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی جانب سے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ہسپتالوں کے لئے نرسز کی بھرتیوں کے سلسلے میں عوامی شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے بھرتیوں کے سارے عمل کی چھان بین کا فیصلہ احسن قدم ہے۔ وزیر اعلی کی ہدایت پر معاملے کی چھان بین اور تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو بھرتیوں کے سارے عمل کی چھان بین کرکے دو ہفتوں کے اندر رپورٹ پیش کرے گی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں باقاعدہ اعلامیہ جاری کردیا ہے کمیٹی کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعدہی حقیقی صورتحال اور وجوہات کا علم ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قبائلی اضلاع میں تقرریوں کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی موجود تھی اور کیا حکومت نے اس کی ہدایت کی تھی۔ مقامی افراد کے نہ ملنے پر غیر مقامی امیدواروں کی تقرری کی کس حد تک گنجائش رکھی گئی تھی یقیناً طریقہ کار موجود ہوگا لیکن اس کی چند اں پابندی نہیں کی گئی جس سے تنقید اور احتجاج کی نوبت آئی۔ بہرحال ان سوالات سے قطع نظر جب ا ن نتائج کو روک کر تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے از خود یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اس سے اس امر کا عندیہ ملتا ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور ہدایات کا سختی سے نفاذ نہیں ہوسکا ہے بجائے اس کے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کی صورتحال میں بہتری آتی طرز حکومت اورحکومتی امور ومعاملات خاص طور پر تقرریوں و تبادلوں کے معاملات قبل ازیں کی ان حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں رہے جنہیں حکمران بدعنوان اور نجانے کن کن ا لفاظ سے یاد کرتے آئے ہیں یہ تاثر حکومتی کارکردگی اور عوام میں اس کے حوالے سے منفی تاثرات کا باعث بن رہا ہے جس کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہئے حکومت اگر تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تو اس کی توجیہہ اور گنجائش نکل سکتی ہے لیکن پرانی حکومتوں کے ڈگر پر چلنے کی گنجائش نہیں۔
تعلیمی اداروں میں جا کر ویکسین لگائی جائے
کورونا سے بچائو کی ویکسی نیشن کیلئے عمر کی حد کم کرنے کی پالیسی کے تحت خیبر پختونخوا کے بڑے ہسپتالوں میں 15سال سے اوپر کے بچوں کو ویکسی نیٹ کرنے کا آغازاحسن اقدام ہے۔اس حوالے سے ہسپتالوں میں کتنے بھی احسن انتظامات کئے جائیں اس مہم کی کامیابی تعلیمی اداروں میں جا کر طلبہ کو ویکسین لگانے ہی سے ممکن ہو گا اس طرح سے عملے کو ایک جگہ بہت سے افراد کو ویکسین لگانے کا موقع ملے گا۔وہاں طالب علموں کواپنے ہی تعلیمی ادارے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ویکسین لگانے کی ترغیب وسہولت ملے گی۔ یوں یہ ہم خرما وہم ثواب کے مصداق ہو گا اس پر محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت کے حکام نے کیوں غور نہیں کیا یہی وہ رویہ ہے جو اس طرح کے مہم کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتا آیا ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
فنڈز کے اجراء میں تاخیر کیوں؟
سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی طبی آلات کی فراہمی کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق فنڈز کے اجراء میں تساہل کا مظاہرہ عدلیہ اور عوام دونوں عدالتوں کی توہین کے متراد ف فعل ہے جس کا عدلیہ کو نوٹس لیناچاہئے فنڈز کی عدم فراہمی سے محکمہ خزانہ کی پراسرار خاموشی عوامی صحت کی سہولتوں سے انکار کے مترادف ہے ۔لازمی سامان ہسپتالوں کے لئے خریدنے میں مالی مسائل کا درپیش ہونا فطری امر ہے ۔بنیادی تشخیصی آلات کے بغیر بیماریوں کی تشخیص اور مریضوں کا علاج ممکن نہیں ایسے میں مریضوں کو مجبوراً بڑے ہسپتالوں کو ریفرکرنے سے جہاں بڑے ہسپتالوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتاہے وہاں عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بڑے ہسپتالوں میں رش بڑھنے سے سہولیات کم پڑنا اور طبی عملے کے لئے صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے بہر حال یہ کوئی ایسے امور نہیں جس کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت پڑے وزیر خزانہ کے پاس صحت کا محکمہ بھی ہے ہونا تو چاہئے تھا کہ اب تک کام مکمل ہو چکا ہو ابھی بھی تاخیر نہیں ہوئی جتنا جلد ہو سکے فنڈز جاری کئے جائیں۔
صفائی کی ناگفتہ بہ صورتحال
حیات آبادفیز چھ کے مکینوں کی اس شکایت کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا چاہئے کہ پی ڈی اے کا عملہ صفائی ہفتوں غائب رہتا ہے ۔ پی ڈی اے کے پاس صفائی کا کافی عملہ موجود ہے ایک سو تیس کے لگ بھگ عملہ صفائی کو اگر روزانہ ایک فیزکی صفائی کی ذمہ داری دی جائے تو ہفتے میں ایک فیزکی باری آئے گی جو کافی سے زیادہ ہے اس امر کا نوٹس لیاجانا چاہئے کہ عملہ صفائی سے کہیں کوئی بیگار تو نہیں لیا جاتا یا افسروں نے عملہ صفائی کو آپس میں بانٹ رکھا ہے ۔ ڈی جی پی ڈی اے کو کبھی کبھار حیات آباد کی صفائی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے دفتر سے نکلنے کی زحمت کرنی چاہئے جبکہ حلقے ے منتخب صوبائی وزیر اور ممبر قومی اسمبلی کو نمائشی کھلی کچہریاں لگانے کی بجائے دیرینہ عوامی مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہوجانا چاہئے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا