انتخابی اصلاحات، تحفظات اور الزامات

یہ عوام کی کس قدر بے بسی اور ان کی آزادانہ رائے کی ناقدری ہے کہ وہ اپنی پارلیمانی جمہوریت میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے تصور سے لاتعلق ہو تی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں کبھی کوئی ایسے انتخابات منعقد نہ ہو سکے جن پر دھاندلی کا الزام نہ لگا ہو ۔ دنیا بھر میں شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں باہمی تعاون سے یہ فریضہ انجام دیتی ہیں۔ جمہوریت از خودقائم نہیں ہو جاتی بلکہ ایک اجتماعی سوچ و دانش کے تحت وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے۔جن ممالک میں جمہوریت تنومند اور رائے عامہ کی عکاس ہے وہاں منصفانہ اور آزادانہ انتخاب ہی اصل وجہ ہے۔ ہم ابھی تک سات دہائیوں سے آزادانہ الیکشن کو یقینی نہیں بنا سکے اور اس مرتبہ تو قبل از انتخاب یہ طے نہیں ہو رہا کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ پہلے ہی سے شکوک و شبہات اور اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے ۔ اپوزیشن اس مشین کی بھر پور مخالفت کر رہی ہے اور اسے ایک چال قرار دے چکی ہے کہ حکومت مشین کے ذریعے دھاندلی کا ارادہ رکھتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر الیکشن میں شفافیت پائی جائے، کمیشن کے ارباب اختیار نے مشین کے ذریعے انتخاب پر اعتراضات کئے ہیں۔ اس حوالہ سے سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی حکومتی ترامیم مسترد کر دی ہیں۔
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں تکنیکی اعتبار سے دھاندلی کے امکانات موجود ہیں۔آپریٹرز کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ تربیت حاصل کر سکے اور اس پر مکمل استعدادپائے۔ انتخابی تنازعہ کی صورت میں کوئی ثبوت موجود نہیںاور بیلٹ پیپر کی رازداری بھی نہیں رہے گی۔ اسی طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سافٹ ویئراورہارڈ ویئر کی جانچ مشکل ہے تو ایسے میںچار لاکھ مشینوں پر کم از کم 150 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی ۔ ہالینڈ، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی اور فن لینڈ اپنے ہاں ووٹنگ مشین کا استعمال ترک کر چکے ہیں جبکہ بھارت میں کوئی بائیس برس کی کوششوں کے بعدانتخابات میں الیکٹرانک مشین کا استعمال شروع ہوا۔الیکشن کمیشن نے مشین کے ذریعے ایک دن میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخاب اور کسی عدالتی حکم سے عین وقت پر بیلٹ میں تبدیلی کے کام کو مشکل کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ان اعتراضات کے حوالے سے حکومتی ارکان شدید ناراض ہیںاور انہوں نے واضح طور پہ کہا یہ حکومت کا کام ہے کہ الیکشن کے انعقاد میں کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ساتھ جذباتی وابستگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب انہوں نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیان بازی کا نیا محاذکھول دیا ہے۔ وزیر اعظم بلدیاتی انتخابات سے قبل2017کی مردم شماری کے تحت انتخابی حلقوں کی از سر نو حلقہ بندی کرانے کے بھی خواہش مندہیں۔اس حوالہ سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم بھی لازمی ہے جس کے تحت آبادی کی بجائے ووٹر لسٹ کی بنیاد پر حلقہ بندی کرانے کا بل قومی اسمبلی میں منظور ہو چکا ہے ۔بل میںیہ ترمیم بھی قانونی مشکلات پیدا کر سکتی
ہے کیونکہ آئین کے تحت انتخابی فہرست تیارکرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے جبکہ حکومت نادرا کو اختیارات دینے کی کوشش کررہی ہے۔اسی طرح حکومت قبل از وقت انتخابات کی حکمت عملی پر بھی کام کر رہی ہے جس میں سمندر پار پاکستانیوں کو انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کے حقوق دینا شامل ہیں۔ الیکٹرانک مشین کے ذریعے انتخابات میں فنی و عملی مشکلات موجود ہیں اور ان مشینوں کے استعمال میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نئی مردم شماری کے نتیجہ کو تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کر لیں ۔ انتخابات سے قبل اس صورتحال کو دیکھ کر ہر دردمند پاکستانی مضطرب ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوئے ملک میں شفاف الیکشن کے لئے مشاورت سے انتخابی اصلاحات کو قابل عمل بنائیں۔ انہیں اپنی کارکردگی، منشور اور عوام پہ ہی بھروسہ کرنا ہوگا کہ وہ صرف ووٹ کی طاقت سے کامیاب ہوں ۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو یہ عہد کرنا ہوگا کہ وہ کسی کی سرپرستی اور کسی قسم کی دھاندلی کے بغیر انتخاب میں حصہ لیں گے تاکہ عوام کی آزادانہ رائے کے نتیجہ میں حقیقی نمائندگی کا حق ادا کر سکیں۔اگرسیاسی نظام کو موثر اور پارلیمان کے کردار کو مضبوط کرنا ہے تو پھر سیاسی رہنماؤں نے اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگاورنہ اس کشیدگی اور محدود نظر کی سیاست سے ہماری نئی نسل کی آزادیٔ فکر بّری طرح متاثر رہے گی۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو