معیشت کاازسرنوتعین ناگزیر

افغانستان میں ڈرامائی انداز میں ہونے والی پیش رفت سے پاکستان کو سوویت یونین کے انخلاء کے بعد جیسے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور مغرب خطے اور پاکستان کو اپنی ترجیحات سے نکال سکتے ہیں یا پھر وہ افغانستان میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے دبائو بڑھا ئیں گے۔ پاکستان کی معیشت کا کمزور پہلو غیر ملکی قرضوں پر انحصار ہے۔ اس کے علاوہ پیداواری شعبوں اورکھپت کیلئے درآمدات بھی بڑھ رہی ہیں، پہلے ہی کورونا وائرس کی وباء نے ملک کے کمزور معاشی ڈھانچے کی قلعی کھول دی ہے اور اب افغانستان کی موجودہ صورتحال نے ان مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ مجموعی حیثیت سے اور شعبہ جاتی بنیاد پر بھی ملکی معیشت کا دائرہ کار محدود ہے۔ زراعت معیشت کا اہم حصہ ہے اور کاشت کاری پر مبنی زراعت میں غذائی فصل میں صرف گندم جبکہ منافع بخش فصلوں (کیش کراپس) میں چاول، کپاس اورگنا نمایاں ہیں۔کیش کراپس میں چاول اور کپاس برآمدی ضرورت پوری کرتی ہیں جبکہ گنا درآمدات میں کمی کی مد میں بہت فائدہ مند ہے۔ مینو فیکچرنگ اور برآمدی شعبوں میں ٹیکسٹائل کا غلبہ ہے۔ ریونیو میں جنرل سیلز ٹیکس سب سے موثر ذریعہ ہے۔ اسی طرح پٹرولیم مصنوعات سب سے زیادہ درآمد کی جاتی ہیں۔ خیال تھا کہ موجودہ طرز کی معاشی سرگرمیاں روزگار کے مواقع پیدا کریں گی، آمدن بڑھے گی اور غربت کا خاتمہ ہوگا مگر سات دہائیوں سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ برآ مدات کا دائرہ بھی بہت محدود ہے، جس میں صرف تین یا چار مصنوعات شامل ہیں جبکہ برآمدات میں دوتہائی حصہ ٹیکسٹائل کا ہے۔اسی طرح برآمدات کیلئے منڈیاںبھی تین یا چار ملکوں یا یورپی یونین جیسے ملکوں کے اتحاد تک محددو ہیں۔ معیشت بار ہا دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچتی رہتی ہے اور اس کا بیل آئوٹ پر بڑھتا انحصار اس طرز ترقی کی داستان سنا رہا ہے جو ہم نے اپنا رکھا ہے۔ کورونا نے بھی معیشت کو بڑے پیمانے پر پائیدار بنانے میں موجودہ نظام کی نااہلی بے نقاب کی ہے۔ دراصل ہمارے معاشی نظام نے معاشرے اور ریاست کے مخصوص طبقوں کے مفادات کا ہی تحفظ کیا ہے۔ اس سے عدم مساوات بڑھی، امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری معیشت لوگوں کی ضرورتوںکو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ کورونا وائرس نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اقتصادی ترقی کا موجودہ نظام لوگوں کیلئے کچھ نہیںکررہا۔ اقتصادی انتظام کے جو طریقے گزشتہ چار دہائیوں سے اختیارکئے گئے ، وہ گلوبلائزیشن (عالمگیریت) اور مارکیٹ پر مبنی ہیں۔ وبائی صورتحال سے ہونے والی معاشی تنزلی نے گلوبلائزیشن مارکیٹ کے نظام کی ساخت کو نقصان پہنچایا۔ دنیا بھر میں معاشی گراوٹ سے تقریباً تمام ملکوں میں گھریلو آمدن میں کمی آئی اور صارف کی طلب محدود ہوگئی جس میں درآ مدی اشیاء بھی شامل ہیں۔ یوں مجموعی عالمی درآمدات مجموعی عالمی برآمدات کے برابر ہوگئی ہیں۔ درآمدی اشیاء کی طلب کم ہونے کا مطلب برآمدات کیلئے منڈی کا سکڑنا ہے۔اسی طرح عالمی منڈی غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بھی محدود ہو رہی ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر درآمدات ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں اور ان کیلئے بڑی منڈیاں شمالی امریکہ اور یورپ ہیں، ان دونوں خطوں میں بحرانی صورتحال کے باعث پاکستان کی پہلے سے ہی تنزلی کا شکار برآمدات میں مزید کمی آنے کا خدشہ ہے۔اس کے نتیجے میں زر مبادلہ میں بھی تیزی سے کمی آئے گی۔ اسی طرح خلیجی ممالک میں معاشی بحران کے باعث بیرون ملک سے افرادی قوت کی واپسی ہو سکتی ہے، یوں ترسیلات زر میں بھی نمایاں گراوٹ آئے گی جبکہ درآمدات کی موجودہ سطح برقرار رہنے کا امکان ہے ۔ اس سے ادائیگیوں کا توازن مزید تشویشناک حد تک بگڑے گا۔ یوں معاشی لحاظ سے پاکستان کوکثیرالجہتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کمی سے کئی ٹیکسٹائل ملیں بند ہو سکتی ہیں جبکہ ملوں میں پیدارکم ہونے سے خام کپاس کی طلب بھی کم ہوجائے گی ۔ پیداواری اور زرعی شعبوں میں تنز لی کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور سماجی بدامنی کی صورت میں نکلے گا۔کپاس کا پاکستانی معیشت میں بنیادی کردار ہے اور کپاس کا سنہری دور اب گزر چکا ہے۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری ، ان کی برآمد اور کپاس کی پیداوار کا اب معیشت میں اہم کردار ختم ہو چکا ہے۔ منڈی کی بالادستی کے فلسفہ نے پیداوارکنندگان کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے کہ کیا، کتنی اور کہاں مصنوعات تیار اور درآمد کرنی ہے ۔ درآمدات کے ذریعے صارف کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی سہولت اب دستیاب نہیں ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو عالمی سطح پر قیمتوں میں فرق کے قطع نظر ایسی مصنوعات پیدا کرنا ہوں گی جو اس کی بنیادی ضرورت ہوں۔ ضروری اور اہم اشیاء کے حوالے سے خود کفالت یا خوانحصار کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ریاست کو معیشت کے از سر نو تعین، روزگاری کی فراہمی اور سماجی خدمات اور لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی ،یہ ریاست کی بقاء کیلئے بھی ضروری ہے۔ (بشکریہ،دی نیوز،ترجمہ:راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب