جی جی سر! پاکستان اوپر جارہا ہے

اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں ایک روپیہ چند پیسے اضافے کی سمری بھیجی لیکن پٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں پانچ روپے کے اضافے کی منظوری دے دی گئی مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمت بھی بڑھا دی گئی۔ ڈالر شریف ایک سو بہتر روپے سے تجاوز کر چکا ۔ سونے کی قیمت میں مزید تین سو روپے اضافہ ہو گیا ہے ۔ حقانی ایک پشتون قبیلہ ہے جو افغانستان میں رہتا ہے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن مصروف آدمی ہیں اس لئے فون نہیں کر سکے ہم امریکہ کے لئے کرائے کے جنگجو رہے ۔ الیکشن کمیشن قابل احترام ادارہ ہے ۔ تنقید افراد کے سیاسی کردار پر کی جسے بری لگتی ہے وہ سیاسی کردار ادا کرنے کی بجائے قانون کے مطابق کردار ادا کرے ۔ پھلجڑیاں اور بھی ہیں اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ ہمارے ہمراز فقیر راحموں چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان جب سیاست سے ریٹائرہوں تو انہیں ہسٹری کمیشن کا سربراہ بنا دیا جائے تاکہ وہ ہسٹری کی ٹھوکا نکال کرکے اسے سیدھا کر دیں ۔تجویز بری نہیں آخر انہوں نے کرکٹ کا قبلہ سیدھا کرنے کے لئے رمیز راجہ کو پی سی بی کا سربراہ لگا دیا ہے ۔ رمیز راجہ بھی اتنے ہی عظیم اور بڑے کھلاڑی ہیں جتنے عظیم اور بڑے سیاستدان فیصل واواڈا ہیں۔ راجہ کا کوئی ایک یادگار میچ ؟۔ جانے دیئجے یہاں سب چلتا ہے جیسے وہ لالے عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا گانا چلا تھا ”اچھے دن آئیں گے” لالہ جی آج کل نجانے کہاں ہوتے ہیں ورنہ ان سے پوچھ لیتے ۔ اچھے دن ابھی کتنے فاصلے پر ہیں۔ گزشتہ شب دوستوں کی ایک محفل میں تھا جب پٹرول مہنگا ہونے کی اطلاع ملی پریشانی میں پورے دوگلاس پانی پی لیا ‘ پھر یاد آیا کہ اپنے پاس تو سائیکل بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مجاہد کہہ رہا تھا”پچے کم پیدا کرو اخراجات کم ہوں گے اخراجات کم ہوئے تو مہنگائی کم ہوجائے گی۔ یا اللہ کیسے کیسے نابغے آپ نے ہمارے مقدر میں لکھ دیئے ۔ ایک دل جلے نے سوشل میڈیا پر لکھا”ڈالر جب 184 روپے کا ہو جائے تو اسے دو پر تقسیم کرکے 92 ورلڈ کپ کی فتح کا جشن منا لیجئے” پاکستان جس طرح اوپر جارہا ہے اس کی قدر نا کرنا بھی اچھی بات نہیں پہلے ہم صرف ا پنے لئے مانگتے تھے اب تو برادرافغانستان کے لئے بھی مانگنا پڑے گا اس لئے تو وزیر اعظم نے کہا ہے دنیا طالبان کو موقع دے ۔ اس موقع سے یاد آیا ہمارے ملتانی مخدوم وزیر خارجہ قبلہ شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے ”کالعدم ٹی ٹی پی کو معافی دینے پر غور کیا جارہا ہے” معاف کیجئے گا مخدوم صاحب قبلہ ‘ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے ہم خیالوں کے ہاتھوں میرے سات عزیز قتل ہوئے ۔ آپ کا کوئی عزیز قتل نہیں ہوا اس لئے آپ یہ سوچ سکتے ہیں ویسے مقتولین کے ورثا سے پوچھے بغیر حکومت یا ریاست قاتلوں کو کیسے معاف کر سکتے ہیں؟
دو سنجیدہ بلکہ دکھی سطروں پر معاف کیجئے گا ہم پھر سے باتیں واتیں کرتے ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں اداروں سے ٹکرائو کی خواہش نہیں رکھتے ۔ کیا شاندار بات کہی ہے ۔ بات تو فواد چودھری کی بھی دلچسپ ہے جو بالائی سطور میں نقل کی وہی الیکشن کمیشن بطور ادارہ قابل احترام ہے ۔ تنقید افراد کے سیاسی کردار پر کرتے ہیں۔ فقیر راحموں پوچھ رہے ہیں یہ سہولت رعایا کو بھی حاصل ہوگی کہ اگر وہ کسی کے سیاسی کردار پر سوال اٹھائیں تو انہیں غدار ملک دشمن وغیرہ وغیرہ قرار نہیں دیا جائے گا؟ ۔ ہمارے محب مکرم حضرت مولانا فضل الرحمان آج کل پیپلز پارٹی پر بہت برہم رہتے ہیں لیکن اس سوال کاجواب نہیں دیتے کہ مرحومہ و مغفورہ پی ڈی ایم نے تو طے کیا تھا کہ پارلیمان سے استعفے آخری مرحلہ میں دیئے جائیں گے ۔ یعنی لانگ مارچ کے بعد پھر یہ لانگ مارچ سے قبل استعفوں کا شوشہ کس نے چھوڑا اور کس کے کہنے پر؟حالیہ دنوں میں ایک سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا” اس ملک میں الیکشن ہمیشہ چوری ہوئے خود ہم بھی چوری شدہ الیکشنوں کے ذریعے برسر اقتدار آئے” اس تاریخی اعتراف پر ”ہلال جرأت” پر ان کا حق فائق ہوا۔ ہمارے وزیر خارجہ نے ایک اور بات بھی کہی ہے وہ یہ کہ فرقہ واریت کو بھارت ہوا دیتا ہے ۔ بہت ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض ہے حضور بھارت والے ٹرک کے پیچھے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہم اس میں صدیوں سے خود کفیل ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں امریکہ سے ایسے تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت سے ہیں۔ سر جی بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 140ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہے اور ہمارے عرب دوستوں کی 400ارب ڈالر کی۔ دنیا معاشی مفادات کو دیکھتی ہے یہاں ہم نے امریکہ کے نخرے اٹھانے میں چار دہائیوں کے دوران اپنی معیشت کو ساڑھے تین سو ارب ڈالر کا چونا لگوایا اس دوران ملنے والی امدادیں کہاں گئیں؟ کچھ کچھ تو فقیر راحموں کو بھی پتہ ہے لیکن وہ کہتے ہیں جنرل مشرف ان دنوں بستر علالت پر ہیں۔ شوکت عزیز پتہ نہیں کہاں ہے ۔ کچھ لوگ وفات پاچکے ہیں اب جیبیں بھرنے والوں کا ذکر کیا کرنا ۔ کاش کسی دن کوئی ایسا ابھر آئے جو رعایا کو عوام بننے کا موقع دے اور ایک تحقیقاتی کمیشن بنائے جو صرف اس بات کی تحقیقات کرے کہ دو مختلف برانڈز کی افغان پالیسی سے اس ملک کا نقصان کتنا ہوا اور جو امدادیں یا لاجسٹک سپورٹ فنڈز ملے وہ گئے کہاں؟ اچھا یہ ویسے ہو گا نہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کا اب عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ جدوجہد کوئی اور کرے پھل وہ کھائیں ۔ عین ممکن ہے آپ اس سے اختلاف رکھتے ہوں ۔ ایسا ہے تو یہ آپ کا جمہوری حق ہے ۔ اب چلتے چلتے یہ کہ ذرائع ابلاغ کی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بھی ناقابل قبول قرار دے دیا ہے ۔ چند ایک تبدیلی پسندوں اور آبیارویوں کے علاوہ اہل صحافت میڈیا اتھارٹی پر یکساں موقف اپنائے ہوئے ہیں حکومت کو بھی ضد نہیں کرنی چاہئے ۔ تحریک انصاف کو یہ ضروریادرکھنا چاہئے کہ اگر واقعی یہ اتھارٹی بن جاتی ہے تو پھر اس کی الزام تراشی والی سیاست کا کیا ہو گا؟ خیر چھوڑیں تبدیلی پسند ناراض ہو جائیں گے ورنہ تفصیل کے ساتھ عرض کیا جا سکتا ہے کہ جن من گھڑت داستانوں سے اس کی سیاست چمکی تھی اب ویسے سودے فروخت نہیں ہو رہے اس لئے میڈیا کی آزادی گراں گزر رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام