علاقائی تعاون و ترقی کے منصوبے

وزیراعظم عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں بدقسمتی سے بجلی بہت مہنگی ہے۔ تاجکستان میں سستی، صاف ستھری پن بجلی سستی ہے لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے بجلی بہت مہنگی ہے، انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ کاسا1000توانائی منصوبے سے پاکستان کو بھی تاجکستان کی بجلی سے فائدہ پہنچے گا وزیراعظم عمران خان ملک کے آبی وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھانے اور ریکارڈ تعداد میں ڈیم بنانے کے منصوبوں اوران کی تکمیل کے حوالے سے ہمیشہ پرعزم رہے ہیں وزیر اعظم کو ملک میں بجلی کے مہنگی ہونے کا بھی احساس ہے ۔ آبی بجلی ہی سستی ہوتی ہے لیکن وطن عزیز میں ڈیم بنانے اور سستی بجلی بنانے کے جو بڑے منصوبے ہیں ان کا آغاز و تکمیل لمبی مدت اور غیر یقینی ہی ہوتا ہے جبکہ چھوٹے پن بجلی کے منصوبوں پر دعوئوں کی حد تک توجہ اور عملی طور پر صورتحال برعکس ہی رہا ہے جس میں موجودہ حکومت بھی شامل ہے وطن عزیز میں جس انداز میں پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ کے دعوے ہوتے رہے ہیں ان پرعملدرآمد ہوتا تو آج نہ تو بجلی مہنگی ہونے کے اعتراف کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی کسی دوسرے ملک سے بجلی لینے کی ضرورتپ ڑتی بہرحال وسطی ایشیا سے بجلی کی سپلائی کے منصوبےCASA 1000 کی تکمیل وسطی ایشیا جنوبی ایشیا کے اس حصے کی توانائی کی ضروریات پوری ہونے کی راہ ہموار ہو گی۔ منصوبے کے مطابق1300میگاواٹ سستی پن بجلی افغانستان اور پاکستان کومہیا کی جائے گی۔ لیکن1200 کلومیٹر لمبے اس ٹرانسمیشن منصوبے کی کوئی واضح شکل سامنے نہیں آ پائی؛ اگرچہ تکنیکی طور پر یہ منصوبہ دوطرفہ فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں وسطی ایشیا کے پن بجلی گھروں کی فاضل پیداوار پاکستان اور افغانستان کو منتقل کی جائے جبکہ وسطی ایشیا کی برفانی سردیوں میں جب کرغیزستان اور تاجکستان کے پن بجلی گھر بند ہوتے ہیں اور اس موسم میں پاکستان میں بجلی کی فاضل مقدار موجود ہوتی ہے تو یہ بجلی ادھر سے شمالی مغربی افغانستان اور وسطی ایشیا کو منتقل کی جا سکتی ہے۔اس وسیع فوائد کے حامل منصوبے کو مالی مشکلات کا بھی مسئلہ نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ورلڈ بینک امریکہ اور کئی دیگر ممالک قریب ایک ارب ڈالر کے اس منصوبے پر سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں مگر یہاں گاہک اور بائع کی دلچسپی اور مفادات کے مابین افغانستان کے حالات آڑے آتے رہے ہیں۔ماضی میں افغانستان کے حالات میں اس منصوبے کا آغاز ہی غیر یقینی کی صورتحال میں کیا گیا تھا اب جبکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی ہے لیکن اسی طرح کے کسی بڑے منصوبے کے لئے اب بھی حالات اس قدر سازگار نہیں کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کی توقع اطمینان سے کی جا سکے یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا جب خطے کے تمام ممالک اس حوالے سے مثبت کردار ادا کریں تاکہ پورے خطے کے لئے نافع اس منصوبے کو بلا رکاوٹ مکمل کیا جا سکے ۔مزار شریف جلال آباد کابل ریلوے اور ترکمانستان ‘ افغانستان ‘ پاکستان گیس پائپ لائن کے بڑے منصوبے ہوں یا سی پیک میں توسیع اور علاقائی ممالک کی اس میں شمولیت ان تمام منصوبوں اور امور کا بالآخر تعلق بھی خطے کے امن و امان سے جڑتا ہے۔ ازبکستان کے ساتھ ٹرانس مزار شریف ٹرین اور روڈ نیٹ ورک منصوبے کے تحت گوادر اور کراچی کو مزار شریف کے راستے پہلے تاشقند اور اس کے بعد دوشنبے اور قازقستان سے ملانے کا منصوبہ کامیاب ہوا تو تمام وسطی ایشیائی ریاستیں اس منصوبے کے تحت ٹرین اور سڑک سے منسلک ہو جائیں گی تو پورا منظر نامہ ہی تبدیل ہو جائے گا۔چین روس وسطی ایشیا پاکستان ایران اور مشرق وسطی کا ایک بڑا حصہ زمینی راستوں سے ایک دوسرے سے منسلک ہو سکتا ہے بشرطیکہ پائیدار امن قائم ہو اور ہر ملک روابط کے ان عظیم تر وسائل کیلئے مخلصانہ کوششیں کرے۔ اس کام کیلئے جو موقع دنیا کے اس حصے کے پاس اس وقت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھاموجودہ دور اس لحاظ سے بہتر ہے اورامید کی جا سکتی کہ افغانستان کے مسائل کا حل وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے وسیع تر روابط سے عملی طور پر ممکن ہیں۔ وسطی ایشیا کے ممالک پاکستان چین ایران اور روس کے نمائندوں اور رہنماوں کے اس حوالے سے روابط جو پچھلے ہفتوں میں خاص طور پر افغان صورتحال کے تناظر میں ہوئے اس علاقائی اتفاق رائے کی خوش آئند علامت ہیں جبکہ وزیر اعظم پاکستان کو اس خاص صورتحال میں خطے کے اہم ممالک کے ساتھ بات چیت کا موقع شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس سے حاصل ہو گیا ہے۔ یہ فورمز اس خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے والی پیش قدمی کے ہم معنی ہیں۔ یہی اس خطے کے ممالک کی حقیقی منزل ہے۔ انہیں اصولی طور پر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنا اور ایک وسیع تر ایشیائی دائرے کی صورت میں سامنے آنا ہے۔علاقائی ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور بہتر تعلقات کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ا فغانستان کے پڑوسی ممالک کے درمیان اہم منصوبوں میں شراکت اور ان منصوبوں سے استفادے میں افغانستان کو بھی شامل اور شریک کرکے تباہ حال ملک کو معاشی و اقتصادی سہارا دینا ممکن ہو گا افغانستان میں قیام امن اور استحکام امن کا معاملہ اقتصادی بہتری سے مشروط ہے جو علاقائی ممالک کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اس طرح کے منصوبے بنتے رہے ہیں لیکن اس پر پیش رفت حالات کی نذر ہوتے آئے ہیں۔ان کی تکمیل و استفادہ کی نوبت آنا ہی اصل کامیابی ہو گی جو علاقائی ممالک کے باہمی تعاون کے ساتھ ہی ممکن ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج