4 47

اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

آج سائنس کا دوردورہ ہے، نت نئی ایجادات نے انسان کے رہن سہن میں کتنی انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں، وقت کی اہمیت روزبروز بڑھ رہی ہے، جسے دیکھئے وقت کی کمی کا رونا رو رہا ہے۔ کہتے ہیں زیادتی کسی چیز کی بھی اچھی نہیں ہوتی شاید زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش نے آج کے انسان کو بہت زیادہ مصروف کر دیا ہے یا پھر ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور انسان کو ان تقاضوں کی روشنی میں زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ جو ذرا سی سُستی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے، اسی خیال نے انسان کو آگے کی طرف بڑھتے رہنے پر مجبور کر دیا ہے، اب جسے دیکھئے مسلسل بھاگ رہا ہے، اگر کبھی خوشگوار بچپن کی یاد آتی بھی ہے تو بندے کے بس میں کچھ بھی نہیں ہوتا! کھیل بچپن کے لڑکپن کے بہت دلکش تھے۔ اس زمانے میں کہاں باردیگر جائیں حوالے سارے محبتوں کے تھے، ایک دوسرے سے ملاقات کو خوشی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، ہمیں یاد ہے ہم ہر سال والد صاحب کیساتھ زیارت کاکا صاحب جایا کرتے تھے، وہاں ہمارے رشتہ دار تھے، میاں صاحب کا پتھروں سے بنا ہوا ایک کشادہ گھر جس کی وسیع وعریض ڈیوڑھی میں چارپائیاں پڑی ہوتیں، ہم گلیوں میں کھیلتے زیارت جاتے، بھاگ دوڑ لگی رہتی لیکن اس دوران جب بھی ڈیوڑھی سے گزرنے کا اتفاق ہوتا تو والد محترم اور میاں صاحب کو ایک دوسرے سے ہم کلام پاتے! کبھی سوچتے کہ یہ کہیں آتے جاتے بھی نہیں ہر وقت بیٹھ کر باتیں ہی کرتے رہتے ہیں، یہ کتنی باتیں ہیں جو ختم ہونے میں نہیں آتیں، جب کبھی ان بزرگوں کی یاد آتی ہے تو ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا وخضر سے
اب دوریاں ہیں کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں! ہمیں آج کے دور کی مصروفیت کا علم ہے، ہماری مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ ہفتے میں کئی بار دوستوں رشتہ داروں کیساتھ بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہیں لیکن ہماری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ جب کبھی وقت ملے تو اپنوں سے ملتے رہا کیجئے ان کے چھوٹے چھوٹے کام کر دیا کریں، صلہ رحمی اسی کو تو کہتے ہیں سر راس مسعود کا یہ واقعہ ہم پہلے بھی کسی کالم میں لکھ چکے ہیں، ان کے گھر کسی بہت بڑی دعوت کا اہتمام تھا جس میں بڑے بڑے عہدیدار مدعو تھے، تمام مہمانان گرامی آچکے تھے، معزز مہمانان گرامی تقریب شروع ہونے کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے، مہمان تو آچکے ہیں پھر کس کا انتظار ہے؟ سر راس مسعود نے مہمانوں سے کہا کہ ہمارے ایک مہمان پہنچنے والے ہیں بس تھوڑی دیر انتظار کی زحمت گوارا کیجئے، راوی کا بیان ہے کہ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ضرور کوئی بہت بڑی شخصیت ہوگی جو سب کو اتنا انتظار کروایا جارہا ہے، تھوڑی دیر کے بعد وہ معزز مہمان تشریف لے آئے جو کسی محکمے میں کلرک تھے لیکن سر راس مسعود کے قریبی عزیز تھے۔ مہمان کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں سوچنے لگا کہ انسانی رشتوں کا پاس کرنے والوں سے یہ دنیا ابھی خالی نہیں ہوئی، یہ احترام آدمیت کا حوالہ ہے اس میں عہدہ نہیں دیکھا جاتا یہ تعلقات مال ودولت کے پیمانوں سے نہیں ناپے جاتے یہاں مادہ پرستی کے پر جلتے ہیں، آپ جہاں بھی ہوں جس مقام پر بھی ہوں مخلوق سے ناطہ نہ توڑئیے۔ ہمارے آس پاس رہنے والے گلی محلے کے ہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے ہمارا جنازہ اُٹھانا ہوتا ہے، ان سے تعلق رکھنا چاہئے۔ ہمیں ایک مہربان نے چند دن پہلے ایک واقعہ سنایا کہتے ہیں رات کے دس بجے کا وقت تھا کھانا کھا رہا تھا کہ اچانک باہر کی گھنٹی بجنے لگی، دل میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے بیٹے نے دروازے پر جا کر دیکھا تو علاقے کا پکوڑہ فروش تھا نیچے اترا خیریت پوچھی تو کہنے لگا یہ کاغذات تصدیق کروانے لایا ہوں اس سے کہا بندہ خدا میں تو کھانا کھا رہا تھا، آپ کو رات کا یہی وقت کاغذات کی تصدیق کیلئے ملا تھا، آپ کے تو پڑوس میں سرکاری ڈاکٹر رہتا ہے اس سے تصدیق کروا لی ہوتی؟ میری بات کے جواب میں وہ غریب آدمی بڑی لجاجت اور عاجزی سے کہنے لگا صاحب یقین کیجئے میں آپ کو رات گئے کبھی تکلیف نہ دیتا لیکن کیا کروں مجبور ہوں، ڈاکٹر تصدیق کرنے کی بھی فیس لیتا ہے، وہ کہتے ہیں میں اس کی بات سن کر خوف خدا سے کانپ اُٹھا اس کے کاغذات کی جلدی سے تصدیق کی اور دل میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے پاس اتنا محدود سا اختیار ہے اور اسے بھی ہم مال کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں! یہ مال کہاں تک ہمارے ساتھ جائے گا، ہر چیز میں فائدہ ہر وقت مال کمانے کی دھن؟ اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے اور شکر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کو تقسیم کیا جائے اس کے دئیے ہوئے اختیار سے لوگوں کی خدمت کی جائے، مادی دولت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن روحانی دولت بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور پھر دنیا کی دولت کا کیا اعتبار آج آپ کے پاس تو کل کسی اور کے پاس! خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ من کی دولت سے نواز دیتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟