Idhariya

افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل کیلئے پاکستان کا کردار

پاکستان کی کوششوں سے افغانستان میں پرامن ، مستحکم اور جامع حکومت کی تشکیل کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز خوش آئند ہے، وزیر اعظم عمران خان پرامید ہیں کہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت میں تاجک ، ہزارہ اور ازبک برادری کو شامل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اگر حقیقی معنوں میں تمام دھڑے اقتدار میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ 40سال کی لڑائی کے خاتمے اور افغانستان سمیت پورے خطے میں امن کی ضمانت ہو گا۔ افغانستان کے تمام دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لانا آسان کام نہ تھا لیکن پاکستان کے مثبت کردار کی بدولت یہ ممکن ہوا ہے، اس سے قیام امن کی راہ ہموار ہو گی اور تمام دھڑے افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لے سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں گذشتہ 40 برسوں سے خانہ جنگی کے باعث کوئی حکومت افغانستان کے حقیقی مسائل اور معیشت پر توجہ نہیں دے سکی ہے، بلکہ جن قوتوں نے افغانستان پر شب خون مارا انہوں نے اپنی مرضی کا نظام اور اپنی من پسند شخصیات کو حکومت میں لانے کی کوشش کی، تاکہ مفادات کی تکمیل میں آسانی ہو۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور اشرف بھی کہنے کی حد تک افغان صدور تھے، عملی طور پر سکہ امریکہ کا چل رہا تھا، حتیٰ کہ افغانستان کی معیشت بھی امریکی سہارے پر کھڑی تھی۔ بیرونی قوتوں نے دعوئوں کے برعکس اپنا فوکس اپنے اہداف کے حصول تک ہی محدود رکھا ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی چونکہ امریکیوں کو ضرورت تھی اس لیے افغانستان میں پہلے سے موجود متعدد انٹرنیشنل ایئرپورٹس کا خیال نہیں رکھا گیا، اسی طرح جو علاقے امریکی افواج کے زیر استعمال اور کنٹرول میں تھے وہاں کے انفراسٹرکچر پر توجہ دی گئی ، ترقیاتی کام بھی انہی علاقوں میں کروائے گئے، دوسری طرف افغانستان کے دیگر علاقوں کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان بحرانوں میں گھرا دکھائی دیتا ہے، یہ بحران محض ایک دو سال میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ گذشتہ 40 برسوں میں ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ امریکہ نے اگر افغانستان کی تعمیر نو کی طرف توجہ نہیں دی تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ افغانستان کی تعمیرِ نو اس کی ترجیحات میں شامل ہی نہ تھی، البتہ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے جو فنڈز مہیا کئے ، یا جن شخصیات کو اس کی ذمہ داری سونپی تھی، وہ حامد کرزئی ہو یا اشرف غنی ، انہوں نے افغانستان کے انفراسٹرکچر پر اس طرح دلچسپی نہ لی جو کسی بھی جنگ زدہ ملک کی تعمیر نو کے لیے درکار ہوتی ہے بلکہ امریکہ کی جانب سے افغانستان کی تعمیر پر ملنے والی رقم کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوتا رہا ، اور جن افراد کو اس کام کے لیے رکھا گیا تھا ان کی ذاتی جیبوں تک چلا گیا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں یہ سلسلہ گذشتہ 40 سال سے جاری رہا، اب صورت حال بدلی ہے تو بیرونی قوتوں پر انحصار کی بجائے افغانستان کے منتشر دھڑے اور گروہ آپس میں مل بیٹھ کر غور و خوض کر رہے ہیں ۔ افغانستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے اور اس کا کریڈٹ پاکستان کی سول و عسکری قیادت کو جاتا ہے ، پاکستان نے افغانستان میں قیام امن سے لے کر جامع حکومت کی تشکیل تک مثبت کردار ادا کیا ہے ، اب افغانستان کی مقامی قیادت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مزید دست و گریبان اور آپس میں الجھ کر وقت برباد کرنے کی بجائے موقع سے فائدہ اٹھائیں، بالخصوص پاکستان جیسے دوست ملک کی قدر کریں اور پروپیگنڈے پر یقین کرنے کی بجائے اس بات کو سمجھیں کہ پاکستان افغانستان میں اس لیے کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ خطے کا مجموعی امن افغانستان کے امن کے ساتھ جڑا ہوا ہے ، پاکستان میں اسی صورت امن قائم ہو سکتا ہے جب افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل ہو گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کے مجموعی امن اور افغانستان کی تعمیر نو میں دیگر ممالک کو بھی ویسا ہی کردار کردار اداکرنا چاہیے جیسا پاکستان کا کردار ہے، اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی مقامی قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دیرپا امن کے لیے بالغ نظری کا مظاہرہ کرے، جامع حکومت کی تشکیل میں تمام گروپوں کو نمائندگی دینے پر آمادگی وقت کی ضرورت ہے، حکمت کا تقاضا بھی ہے اور عالمی برادری بھی یہی توقع کر رہی ہے کیونکہ اگر افغانستان کی مقامی حکومت بالخصوص طالبان نے دیگر گروپوں کی مناسب نمائندگی کا خیال نہ رکھا تو عالمی برادری کے طالبان سے متعلق خدشات کو تقویت ملے گی جو ان کے مثبت تشخص کو مسخ کرنے کا باعث بنے گا۔