Shazray

ٹیکس وصولی کے مربوط نظام کی ضرورت

حکومت نے غیر رجسٹرڈ کمرشل و صنعتی صارفین پر بجلی اور گیس کی مد میں 17 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ماہانہ 10ہزار روپے تک کے بل پر 5فیصد ، 20 ہزار روپے پر 7 فیصد جب کہ 30ہزار روپے پر 10فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ ایف بی آر کے مطابق یہ فیصلہ نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کیا گیا ہے، غیر رجسٹرڈ کمرشل صارفین کو 17 فیصد تک اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ گھی و کوکنگ آئل اور سٹیل کی قیمتوں میں کمی لانے کیلئے ٹیکس میں ریلیف میں ریلیف دیا گیا ہے تاکہ خوردنی تیل کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔
ٹیکس وصولیوں میں اضافے کو جواز بنا کر ہر دور حکومت میں نئے تجربات کیے جاتے رہے ہیں، لیکن بعد ازاں وقتی فیصلے کو مستقل فیصلے میں تبدیل کر دیا جاتا تھا، اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، یوں کاروبار کیلئے ناساز گار ماحول پیدا کرنے میں کسی حد تک حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت میں جب ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو رہی تھی تو سرمایہ کاروں نے اسی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ ٹیکس نیٹ میں تو کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا الٹا سرمایہ کار ملک سے باہر چلے گئے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ غور و خوض کے بعد ایسے فیصلے کیے جائیں جو ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہوں ۔ پوری دنیا میں ٹیکس وصولی کے مربوط نظام کی وجہ سے حکومت چیک اینڈ بیلنس کو قرار دیا جاتا ہے ، حکومت کی طرف سے ایسا میکنزم بنا دیا جاتا ہے کہ جس سے فرار ممکن نہیں ہوتا، اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں امراء سے ٹیکس وصول کر کے غرباء پر اور عوام کے لیے سہولیات فراہم کرنے پر خرچ کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں صورت حال یکسر مختلف ہے، امیر اور غریب یکساں ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایف بی آر ٹیکس وصولی کا ایسا طریقہ کار وضع کرے کہ جس میں صنعتکاروں سے ٹیکس وصولی سے عوام پر بوجھ نہ پڑے۔
پروٹوکول خاتمے کیلئے ضروری اقدامات
وزیر اعظم ہائوس سے جاری مراسلے میں وی آئی پی کلچر کو حکومتی پالیسی کے خلاف قرار دیتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ سرکاری افسران اور دیگر نجی افراد کو غیر مجاز پروٹوکول دینے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے، تاہم ریاستی مہمان ، سینئر وزراء اور حکومت کی طرف سے مطلع کیے گئے وی آئی پیز کو پروٹوکول کی اجازت دی گئی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں پاکستان سے متعلق سیکورٹی تحفظات پائے جاتے ہیں، حکومتی سطح پر پاکستان کو دنیا کے سامنے پرامن ملک تسلیم کرانے کی کوشش اپنی جگہ مگر عوامی نمائندوں کا طرز عمل اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے، کیونکہ جب دنیا دیکھتی ہے کہ پاکستان کے رہنما اور عوامی نمائندے سخت سیکورٹی کے حفاظتی حصار میں سفر کرتے ہیں ، حتیٰ کہ عوامی جگہوں پر بھی سخت سیکورٹی ہوتی ہے، بالخصوص سیکورٹی پروٹوکول میں عام لوگوں کے لیے راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو دنیا ہمارے قول پر یقین نہیں کرتی، بلکہ اسے ہمارے قول و فعل کا تضاد قرار دیتی ہے، کیونکہ جب ہمارے سیاسی رہنما اپنے ہی ملک میں سیکورٹی حصار کے بغیر سفر نہیں کر سکتے تو پھر دیگر ممالک کے افراد کیونکر ہماری باتوں پر یقین کریں گے؟ اس حوالے سے دیکھا جائے تو وزیر اعظم عمران خان نے پروٹوکول کو محدود کرنے کا بہت اہم فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی بھی جن شخصیات کو پروٹوکول کے حصول کا حقدار قرار دیا گیا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، اور یہ سلسلہ محض انہی شخصیات تک محدود نہیں رہتا ، فیملی اور دوست احباب بھی سرکاری پروٹوکول کو اپنا حق گردانتے ہیں، یوں دیکھا جائے تو دنیا کے سامنے پاکستان کا جو تشخص قائم ہے اس کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ تحریک انصاف اپنی انتخابی مہم اور منشور میں پروٹوکول کے خاتمے کو بیان کرتی رہی ہے ، آج اس وعدے کو ایفا کرنے کا وقت ہے تو عوام توقع کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان پروٹوکول پر ایسی پابندی عائد کریں گے جس کا اظہار وہ اپنی تقاریر میں کرتے رہے ہیں۔
ڈینگی پھیلائو باعث تشویش
دیول گائوں میں ڈینگی کے پھیلائو کے سدِباب کے لیے میڈیکل ٹیم نے بروقت قدم اٹھایا ہے، 300متاثرین میں سے 12افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، متعدد افراد کے ٹیسٹوں کے نتائج موصول نہیں ہوئے ہیں، میڈیکل ٹیم نے ڈینگی لاروے کی تلاش کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی چوتھی لہر کی تشویش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، ہر کچھ عرصے بعد حفاظتی اقدامات تحت لاک ڈائون اور پابندیاں عائد کرنی پڑتی ہیں، اس دوران ضروری تھا کہ برسات کے موسم کے آغاز میں ہی ڈینگی وائرس کے خطرے کو محسوس کیا جاتا اور تدارک کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جاتیں، تاکہ لاروے سے قبل اس سے بچائو کو یقینی بنایا جاتا، کیونکہ طبی ماہرین کے مطابق جب لاروا وجود میں آ جائے تو پھر ڈینگی کا پھیلائو بڑھتا ہے، یوں دیکھا جائے تو ڈینگی لاروے کو تلف کرنے کے لیے اقدامات ناکافی تھے، جس کے باعث نوبت یہاں تک پہنچی۔ محکمہ صحت نے دیول گائوں میں ڈینگی وائرس کے بارے میں معلوم ہونے پر تسلی بخش اقدامات اٹھائے ہیں ، تاہم متاثرہ گائوں میں میڈیکل کیمپ اس وقت تک قائم رہنا چاہیے جب تک ڈینگی کے خاتمے کی تسلی نہیں ہو جاتی، کیونکہ چند سال قبل ڈینگی وائرس پاکستان میں بے قابو ہونے سے سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے تھے، اب اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو ایک طرف کورونا اور دوسری طرف ڈینگی سے نمٹنا محکمہ صحت کیلئے آسان نہ ہوگا۔