خواتین کیخلاف پرویز ہودبھائی کی باتیں

پرویز ہود ایک استاد اور سماجی کارکن ہیں جنہیں پاکستانی ٹاک شوز میں اکثر لبرل یا آزاد خیال طبقے کی ترجمانی کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 1973 سے پڑھانا شروع کیا، اس وقت آپ کو بمشکل ایک لڑکی برقعے میں دکھائی دیتی تھی، اب تو حجاب، برقع عام ہو گیا ہے۔ آپ کو ‘نارمل لڑکی’ تو شاز ونادر ہی نظر آتی ہے۔ ‘جب وہ کلاس میں بیٹھتیں ہیں برقعے اور حجاب میں لپٹی ہوئی ہیں تو ان کی کلاس میں شمولیت بہت گھٹ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کلاس میں ہیں کہ نہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن کی بنیاد پر پرویز ہود بھائی کو گزشتہ روز سے تنقید کا سامنا ہے اور یہ بحث سوشل میڈیا پر اب بھی جاری ہے۔ پرویز ہود کو متعدد اعلیٰ یونیورسٹیوں سے بھی ایسے اسباق پڑھانے پر برطرف کیا گیا ہے ہم نے اپنے 12 جولائی 2020ء کے کالم ”پرویزہود بھائی کی برطرفی کیوں؟ میں لکھا تھا کہ فورمن کرسچین کالج (ایف سی کالج) لاہور کا ایک بڑا نجی تعلیمی ادارہ ہے۔ جہاں سے پرویز ہود بھائی کو ان کے اسلام اور پاکستان دشمن خیالات کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ وہ کالج کے طلبہ کو تعلیم دے رہے تھے کہ ”دو قومی نظریے کی کوئی اہمیت نہیں’ نظریات سے بالاتر ہو کر اور مذہب سے دور رہ کر ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے”۔ اس سے قبل پرویز ہود بھائی کو ان کے انہیں خیالات کی وجہ سے ”لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) سے بھی برطرف کر دیا گیا تھا لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ ان دونوں اداروں سے پرویز ہود بھائی کی برطرفی میں ان کالجوں کی انتظامیہ کا کوئی کردار نہیں۔ اس کے برعکس دونوں کالجوں کے طلبہ اور طالبات نے ان کے خلاف شکایات کی تھیں کہ موصوف طلبہ اور طالبات کو اسلام، پاکستان و نظریہ پاکستان کے خلاف لیکچر بڑے سخت الفاظ میں دیتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والے یا ان کے لیکچر کے خلاف بولنے والے طلبہ اور طالبات سے سختی سے پیش آتے اور ان کو یہ دھمکی بھی دیتے ہیں کہ وہ طاقت ور لابی کے آدمی ہیں ان کو کالج سے نکلوا دیں گے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق دونوں کالجوں کے طلبہ اور طالبات نے نچلی سطح کی انتظامیہ سے ان کی شکایت بھی کی تھی لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی جس کے بعد اعلیٰ سطح پر شکایت اور ان کے لیکچر کو ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا گیا جس کے بعد انکوائری مکمل ہونے کے بعد ان کی اور ان کی ساتھی لیکچرار کی برطرفی عمل میں آئی۔اس پوری صوتحال کا اگر ریاست کی سطح پر جائزہ لے کر اس شخص کو سزا دی جاتی تو آج اس شخص میں اس قدر جسارت قطعی نہیں ہوتی۔حکومت اور ریاست اس جیسے شخص کے خلاف نجانے کیوں کارروائی کرنے سے خوفزدہ ہے۔
پرویز ہود کے اس متنازع بیان کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جو بحث چھڑی ہے اس کے کئی رخ ہیں۔ کچھ افراد کے نزدیک اگر پروفیسر ہودبھائی خود کو لبرل اقدار کا علم بردار گردانتے ہیں تو وہ برقع نہ پہننے والی خواتین کو ‘نارمل’ کیوں کہہ رہے ہیں۔ اس بارے میں بھی بحث ہو رہی ہے کہ پاکستان میں کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں برقع پہننا سماجی اقدار کا لازمی حصہ ہے، تو کیا یہ ان خواتین کی حوصلہ شکنی نہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ خواتین کا لباس کبھی بھی ان کی قابلیت کا پیمانہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔جس ٹاک شو میں یہ بات کی گئی اس کا موضوع یکساں قومی نصاب تھا اور مہمانوں میں ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عائشہ رزاق اور ڈاکٹر مریم چغتائی شامل تھیں۔ ناضرین کو جس بات نے سب سے زیادہ ٹھیس پہنچائی وہ دراصل پرویز ہود کا یہ جملہ تھا کہ برقعے میں ‘آپ کو نارمل لڑکی تو شاز و نادر ہی نظر آتی ہے’۔ عوام ان سے پوچھ رہے ہیں کہ لڑکی کے نارمل ہونے یا نہ ہونے کا تعلق اس کے لباس سے کیوں جوڑا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ کہنا کہ برقع پہننے والی خواتین نارمل نہیں ہیں بالکل غلط ہے اور یہ بھی کہ یہ ان کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ ‘ایک عام مرد سے لے کر ایسے مرد جو بظاہر بہتر تربیت رکھتے ہیں، یہ تمام ہی خواتین اور ان کے کپڑوں سے لگائو رکھتے ہیں۔
پروفیسر صاحب کا برقع پہننے والی خواتین کے خلاف بات کرنا اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ سیکولرز مرد خواتین کے کپڑوں سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے۔ یہ شرمناک عمل ہے۔ موصوف ملک بھر کی یونیورسٹی کا دورہ کریں تو ان معلوم ہوگا کہ کلاس میں اول آنے والی لڑکی بھی پردہ کیا کرتی ہیں۔ حجاب پہننے والی خواتین کے دقیانوسی خیالات اتنے ہی غلط ہے، جتنا ماڈرن خواتین کے بارے میں ایسے خیالات غلط ہیں۔ یہ بے مقصد باتیں بھی کی جاتی ہیں کہ پاکستان کے ایسے علاقے جہاں برقع پہننا سماجی اقدار کا حصہ ہے۔ ایسا پاکستان میں کہیں بھی نہیں ہے۔ خواتین برقعے کا استعمال شریعت کے تحت کرتی ہیں۔ خیبر پختون خوا کی یونیورسٹی میں تمام لڑکیاں باپردہ ہوتی ہیں اور ان میں سے متعدد لڑکیاں پوزیشن بھی لیتی ہیں ‘ نقابی اور حجابی لڑکیاں بھی پڑھائی میں ہوتی ہیں۔ وہ قابل بھی ہیں، اور کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیتی ہیں۔’وہ لوگ جو حجاب کی پابندی کے خلاف ہیں ان یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جو لڑکیاں اپنی مرضی سے حجاب پہنتی ہیں ان کی تضحیک نہیں کی جا سکتی’۔’کوئی ایسا کہہ بھی کیسے سکتا ہے کہ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ وہ اپنے برقعے اتار دیں’۔ٹھیک کہا پرویز ہود نے 1973 سے پڑھانا شروع کیا، آس وقت ان کو بمشکل کوئی ایک لڑکی برقعے میں دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اب پاکستان کی ہر یونیورسٹی برقع پوش خواتین کی بھر مار ہے وہ یہ ثابت کر رہی ہیں برقع ترقی کی راہ میں قطعی رکاوٹ نہیں ہے۔