خیبرپختونخواکی آبادی کیلئے ناکافی سرکاری تعلیمی ادارے

تعلیمی سہولت کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے ابتدائی تعلیم کے لیے پرائمری ا سکولز، اس سے آگے کی تعلیم کے لیے ہائی اسکول، کالج اور اعلٰی تعلیم کے لیے جامعات قائم کی گئیں ہیں۔ ان سرکاری اداروں میں طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی آبادی کے زیادہ تر افراد کے بچے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اخراجات کم ہوتے ہیں۔

ایک ڈیڑھ دہائی پہلے تک تو خیبر پختونخوا میں صرف امرا اور صاحب حیثیت افراد کے بچے پرائیویٹ ا سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے لیکن بعدمیں نجی اسکولوں کی طرف رجوع کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں ایک وجہ سرکاری ا سکولوں کا ناقص نظام تعلیم، دہائیوں قبل کا مرتب کردہ سلیبس جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی یافتہ دور کے معیار پر پورا نہیں اترتا اور سرکاری ا سکولوں میں طلبہ کی تعلیم و تربیت پر عدم توجہ دینا ہے ۔ علاوہ ازیںسرکاری اسکولوں کے طلبہ کو علم و ہنر کے سیکھنے میں معاون اور دوسری ضروری سہولیات کی عدم فراہمی بھی ہے۔

خیبر پختونخوا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے۔ مقامی آبادی کے علاوہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کے صوبے میں در آنے کے بعد ، تعلیم، علاج، سیکورٹی اور رہائشی مسائل میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ عمومی طور خیبر پختونخوا کے لوگ روزگار ،بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور جدید سہولیات کے لیے ملک کے دیگر صوبوں یابیرون ملک کا رخ کرتے تھے لیکن حالیہ برسوں میں چین کے باہمی تعاون سے شروع ہونے والے میگا پراجیکٹ سی پیک سے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقعوں کی وجہ سے بھی نہ صرف پختونخوا کے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد جو دوسرے صوبوں یا بیرون ملک دہائیوں سے مقیم تھی، واپس اپنے علاقوں میں لوٹ آئی ہے بلکہ دوسرے صوبوں اور بیرون ملک سے بھی تعلق رکھنے کافی تعداد میں افراد ان منصوبوں میں کام کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صوبے میں سیکورٹی کی خراب صورتحال کے بعد اب صوبے میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہوتے ہی سیاحتی اور تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ حاصل ہوا اور دوسرے صوبوں اور ممالک کے افراد ہوٹلنگ اور دوسرے کاروبار میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں سے بھی متعدد اپنی فیملیز کے ساتھ یہاں مقیم ہیں اور ان کے بچے بھی یہاں کے ا سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ایسے میں پختونخوا کی آبادی میں اضافے کے ساتھ اس کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا۔ خاص طور تعلیم کے مسائل چونکہ سرکاری اسکولوں کی تعداد موجودہ آبادی سے مطابقت نہیں رکھتی۔جنوبی اضلاع میں تو پھر بھی سرکاری ا سکولوں کی تعداد بالائی علاقوں کی نسبت بہتر ہے اور اُن اسکولوں میں تعلیم کی بہتری سہولتوں کے علاوہ اساتذہ کی مطلوبہ تعداد بھی موجود ہوتی ہے لیکن خیبر پختونخوا کے بالائی اضلاع کی صورت حال اس حوالے سے انتہائی دگرگوں ہے۔ صوبے کے پہاڑی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی تعداد بہت کم ہے اور یہ ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہیں۔ ایسے میں قریب کی آبادی تو ان سے استفادہ کر سکتی ہے لیکن دو ر بسنے والے دیہاتوں اور گائوں کے سادہ لوح افراد جو کہ علم کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں شعور ہی نہیں رکھتے ، وہ صرف اسکول دور ہونے کی وجہ سے اپنے بچوںکو سرے سے اسکول بھیجتے ہی نہیں اور اُن کے بچے ابتدائی تعلیم سے بھی محروم رہ جاتے ہیں، اُن کے نزدیک اتنی دور بچوںکو بھیجنا محض وقت کا ضیاع ہے ۔ ایسے افراد میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے شعور اُجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سرکاری ا سکولوں کی کمی کی اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بااثر اور مالدار افراد نے خدمت خلق کے بجائے کاروبار کے طور پر جگہ جگہ نجی اسکولز کھول رکھے ہیں۔ ان نجی اسکولز میں بھاری ماہانہ فیسوں کے علاوہ پیپر فنڈز اور دیگر مدوں میں سالانہ ہزاروں روپے غریب افراد سے بٹورے جاتے ہیں۔ جو لوگ ان اسکولوں کی فیس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اُن کے بچوں کی فیس معافی یا رعایت کا کلچر بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے ، کیونکہ انسانی ہمدردی یا مخلوق کی خیر خواہی کا عنصر اُن کی کاروباری سوچ کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

تحریک انصاف کی حکومت کو چونکہ مرکز کے مقابلے میں صوبے میں زیادہ وقت ہو چکا ہے ، اس لیے صوبائی حکومت کو اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو کسی منصوبے کی تکمیل کے لیے اپنی مرکزی حکومت سے بھی سپورٹ مل سکتی ہے اور اُس کے لیے اس معاملے میں کافی آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لئے حکومت کو اسکولوں کی اس کمی کے مسلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہئے۔

بلاگر:محمد فیضان یٰسین