ہوائوں سے نہیں لڑتے

یہی عرض کیا جا رہا تھا کہ افغانستان میں آئی حالیہ تبدیلی کے حوالے سے جذباتی ہونے اور یہ تاثر دینے کی ضرورت نہیں کہ ”ہم سا ہو تو سامنے آئے” ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں لیکن اس کا کیا کریں کہ ہمیں ہوائوں سے لڑنے کا شوق ہے ۔ دو دن ادھر پاک افغان سرحد طورخم کے مقام پر افغان حدود میں امدادی سامان لے جانے والے پاکستانی ٹرک کا ”معاملہ” ویڈیو کے ذریعے وائرل ہو چکا ۔ لاکھ جواز تلاش کیجئے اور قصوں سے جی بہلایئے سچ یہی ہے کہ اس واقعے سے کروڑوں پاکستانیوں کے دل دکھے ۔ کس دن ہمارے پالیسی سازوں خصوصاً جو خود کو پاک افغان پالیسی کا ”مغل اعظم” سمجھتے ہیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ افغان پالیسی نے ہمیں دیا کیا ۔ ہمارے پشتون قوم پرست ایک کہانی سناتے ہیں مسلم پشتون ولی کے علمبردار دوسری ریاست تیموی کہانی ہمارے گلے ڈالتی ہے ۔ زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں آج تک یہ طے نہیں پا سکا کہ افغان مہاجرین واپس کیسے جائیں گے ۔ اچھا واپس کیا جاتے ہیں اب تو مزید کی آمد متوقع ہے ۔ کیا ہم مزید بوجھ اٹھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے ضمنی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہماری ہر دور کی افغان پالیسی سے ایک طبقہ خوش اور متعدد ناراض رہتے ہیں۔ خوش اور ناراضگی کی تاریخ بہت پرانی ہے چلیں گڑھے مردے نہیں اکھیڑتے لیکن یہ جو طورخم پرافغان حدود میں امدادی سامان لے جانے والے ٹرک کے ساتھ ہوا۔ یہ سب کیا ہے؟افغان حکومت سے باضابطہ رابطہ کرکے وجہ دریافت کی گئی؟ ۔ ان معروضات پر اسلام پسندوں کے ساتھ”محب وطن” بھی مہربان بھی ناراض ہوئے ۔ کیا محض مہربانوں کی ناراضگی کی وجہ سے خاموشی اختیار کر لی جائے ۔ غالباً یہ درست عمل نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنے لوگوں کو صاف سیدھے انداز میں اعتماد میں لینا چاہئے ۔ مگر اس سے قبل یہ بھی سمجھ لیا جانا چاہئے کہ اگر افغانستان کی عبوری حکومت کے ذمہ داران دوحہ معاہدہ کی شرائط پر عمل نہیں کرتے تو مسائل جنم لیں گے یہ مسائل افغانستان کی داخلی صورتحال کو ہی متاثر نہیں کریں گے بلکہ پڑوسیوں میں سب سے زیادہ ہم متاثر ہوں گے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری افغان پالیسی وسیع اور طویل ا لمدتی مفادات پر کبھی استوار نہیں ہوئی۔ انقلاب ثور سے آج تک ہمیشہ ڈنگ ٹپائو حکمت عملی سے کام لیا گیا نتیجہ ایک فریق خوش اور متعدد ناراض ۔ مثلاً کبھی ہمارے پسندیدہ افغان مجاہد ‘ گلبدین حکمت یار ہوا کرتے تھے ان کی اندھی محبت میں ہم نے احمد شاہ مسعود کو ناراض کیا۔ آگے چل کر جب گلبدین حکمت یار ہماری اولین ترجیح نہ رہے تو انہوں نے ہمارے بارے میں جن ارشادات عالیہ سے جی بہلایا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔
افغانستان کی عبوری انتظامیہ پر اس وقت چار بڑے اعتراضات ہو رہے ہیں۔ اولاً یہ کہ دوحہ معاہدہ سے انحراف کیا جارہا ہے ‘ ثانیاً خواتین سے غیر مساویانہ برتائو ہے ۔ بچیوں کے سکول بند ہیں۔ ثانیاً انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جارہا۔ شہری آزادیوں یعنی قابل قبول جمہوری عمل کی بجائے یک گروہی حاکمیت اعلیٰ کا تصور پختہ ہو رہا ہے ۔ وعدے کے مطابق وسیع البنیاد حکومت تشکیل نہیں دی گئی اور جو عبوری انتظامیہ تشکیل دی گئی یہ ایک خاص نسلی اکائی کی بالادستی کا عملی نمونہ ہے ۔ افغانستان کی عبوری حکومت پر نسلی بالا دستی کے اعتراضات ہو رہے ہیں ان اعتراضات کو دیکھ سن کر وہ عظیم اسلامی دانشور یاد آرہے ہیں جو کسی زمانے میں پاکستانی سیاست کے ووٹوں کی جمع تقسیم سے یہ نتیجہ نکالتے تھے کہ پیپلز پارٹی 33 سے 35فیصد لوگوں کی نمائندہ ہے ۔ 63سے 65فیصد لوگ اس کے مخالف ہیں ان عظیم اسلامی دانشوروں میں سے بعض اب بھی حیات ہیں نہ صرف حیات ہیں بلکہ عبوری افغان انتظامیہ کے پرجوش حامی ہیں۔ کیا اب ان کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ حضور افغان عبوری انتظامیہ سے باہر کھڑے افغان گروپ آپ کے ہی بنائے حساب کتاب کے مطابق اکثریت میں ہیں؟ خیر اس جملہ معترضہ کو اٹھا رکھئے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر عبوری افغان انتظامیہ وہ سب نہیں کرتی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ ایک صورت تو وہی ہوسکتی جس کی طرف افغانستان کے حوالے سے دنیا بھر کے تجزیہ نگار کہہ لکھ رہے ہیں ہمارے وزیر اعظم نے بھی گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وہی بات کی ہے یعنی”عبوری انتظامیہ اور مستقبل کے مسقل نظام ہر دو کے وسیع البنیاد ہونے کا تاثر اجاگر ہونا چاہئے تاکہ خانہ جنگی کا دروازہ نہ کھلے ۔ ہماری دانست میں ایک قدم آگے بڑھ کر عبوری انتظامیہ پر زور دینا چاہئے کہ وہ آبادی کے مختلف طبقات سے غیر مساویانہ سلوک بند کرے ۔ اس امر کو یقینی بنائے کہ انتقال آبادی(مہاجرین) سے ہمسایہ ممالک پر مزید بوجھ نہ پڑے ۔ ہم تو کسی بھی صورت مزید بوجھ اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے بالخصوص اس صورت میں جب ہمارے یہاں یہ رپورٹس موجود ہوں کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران نچلے طبقوں(غربا) میں دو کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں اس اور دیگر معاملات پر عبوری افغان حکومت کے ذمہ داران سے بات چیت ہو رہی ہے ۔ منگل کو عبوری افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ عبوری حکومت میں تاجک ‘ ازبک اور ہزارہ برادری کو نمائندگی دے دی گئی ہے ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ایک کرکے وعدے پورے کر رہے ہیں دنیا ہمیں نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کرکے تسلیم وتعاون کی حکمت عملی اپنائے ۔ اب چلتے چلتے دو تین اہم خبریں پہلی یہ کہ نیپرا نے بجلی کے فی یونٹ نرخ میں دو روپے 7پیسے اضافے کی سمری بجھوا دی ہے ۔ دوسری خبر یہ ہے کہ سرکار سبسڈی پر چلنے والے یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف اشیاء کی قیمتوں میں دو سے دس روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ تیسری اور آخری خبر یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان برقرار ہے ۔ منگل کو بھی سرمایہ کاروں کے 96ارب روپے ڈوب گئے ۔ تین اوسان خطا کر دنے والی ان خبروں سے آگے بڑھتے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت اور حزب ا ختلاف میں انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی (اس میں دونوں ایوانوں کے نمائندے شامل ہوں گے ) بنانے کے لئے اتفاق رائے ہو گیا ہے۔