کھیل بھی سیاست کی نذر؟

کھیلوں کی ابتداء یونان سے ہوئی ہے ۔ اولمپک گیمز ‘ اولمپیا شہر کی یادگار ہیں ‘ جو آج بھی دنیا کی اقوام کو جمع کرنے اور محنت و ہمت کے کارنامے دکھانے کے لئے ڈیڑھ صدی سے باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہوتے آئے ہیں۔ کسی زمانے میں اولمپک گیمز کے فاتح کھلاڑیوں اور ٹیموں کو زیتوں کی شاخوں سے بنے ہوئے تاج پہنائے جاتے تھے ‘ جوعالمی اخوت ‘ محبت اور امن و سلامتی کا پیغام ہوتا تھا کھیلوں میں شریک کھلاڑی اور ٹیمیں ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کے میدانوں سے باہر اور اندر میل ملاپ کے ذریعے ایک دوسرے سے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے سیکھنے کے علاوہ انسانی برادری کی بنیاد پر مساوات اور بردباری کا سبق بھی سیکھتے تھے ‘ کھیلوں ہی کے ذریعے دنیا بھر کی اقوام ایک دوسرے کی تہذیبی اقدار کا احترام کرنا بھی سیکھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ کھیل صرف کھیل ہوتے تھے ‘ اس میں نسلی ‘ ۖجغرافیائی ‘ لسانی اور دیگر تعصبات کی بیخ کنی بھی ہوتی تھی ‘ ان ہی کھیلوں کے ذریعے مختلف ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان میدان میں ایک قسم وقتی طور پر حریفانہ تعلقات بعد میں خوشگوار یادوں اور دوستیوں میں ڈھل جایا کرتے تھے ‘ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے کیونکہ کھیلوں کا مقصد ہی یہی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ایک زمانے میں یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا بتدریج دو بلاکوں میں تقسیم ہو گئی تو اس کے اثرات سیاست و معیشت اور عسکری و دفاعی امور پر تو پڑنا ناگزیرہو یا’ لیکن اس نے زندگی کے دیگر بہت سارے شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ اسی ذیل میں کھیلوں کی دنیا بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
سیاست کی بنیاد پر کھیلوں میں بائیکاٹ کرنے کے عمل کی ابتداء بھی ان ہی دوطاقتوں نے شروع کی جنہوں نے دنیا کو تقریباً نصف صدی سے زیادہ دو بلاکوں میں تقسیم کئے رکھا ‘ 1980ء میں سمر اولمپک گیمز ماسکو میں منعقد ہوئے تھے ‘ امریکہ نے دنیا کے پنسٹھ ملکوں کو ساتھ ملا کر روس کے افغانستان پر 1979ء میں حملہ آور ہونے کی بنیاد پر بائیکاٹ کیا۔ جبکہ دنیا کے 80 ممالک نے بہرحال ماسکو کی اولمپک گیمز میں اپنے کھلاڑی بھیج دیئے تھے ۔ اس کے رد عمل میں روس نے 1984ء میں لاس انجلس میں منعقدہ اولمپک گیمز کا اپنے چودہ مشرقی بلاک کے ملکوں سمیت بائیکاٹ کیا۔کھیلوں کے اس بائیکاٹ کے لئے سوویت یونین اور اس کے حواری ملکوں نے بالکل اس طرح کا بہانہ بنایا تھا جیسا کہ پچھلے دنوں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان میں نہ کھیلنے کے لئے بنایا۔ کھیلوں میں سیاسی نسلی تعصبات اور معاشی مفادات کی مداخلت کی کہانی بہت قدیم ہے بلکہ کھیلوں کی دنیا کے اس کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے 1940, 1916 اور
1944ء کے اولمپک گیمز کو منسوخ کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جاپان اور جرمنی پر 1948ء کے کھیلوں میں شرکت پر ان جنگوں کی وجہ سے پابندی لگائی گئی تھی اسی طرح روس اور بعض دیگر ملکوں کو عالمی ڈوپنگ ایجنسیوں نے اولمپک گیمز میں شرکت سے روک دیا تھا۔ المختصر جدید کھیلوں کی 125سالہ تاریخ میں دنیا بھر کے ملکوں کے درمیان میں کھیلوں کی دنیا میں یہ نشیب و فراز اور آتھل پتھل آتے اور ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ایسا شاید کھیلوں کی دنیا میں پہلی بار ہوا کہ ایک ملک کے کھلاڑی پہلے سے شیڈول پروگرام کے مطابق ہر قسم کی سکیورٹی کے معاملات کی چھان بین اور میزبان ملک (پاکستان) کی طرف سے ہر قسم کی سکیورٹی کی ضمانت کے باوجود کھیل کے میدان میں اترنے سے چند لمحے قبل ایسا اعلان کرتے ہیں جوکسی بھی لحاظ سے جواز نہیں رکھتا۔ کرکٹ پاکستان میں شاید مقبول ترین کھیل ہے اٹھارہ برس بعد نیوزی لینڈ کی کرکٹ کی آمد پر پاکستانی شائقین کرکٹ کی خوشی دیدنی
تھی ۔ ایک تو کرکٹ کی خوشی ‘ دوسری عرصے بعد عالمی کرکٹ کی پاکستان واپسی پر جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث معطل ہو گئی تھی اور پھر اس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم نے جو اعلان کیا اس نے تو پاکستان کے عوام پر ایسے اثرات مرتب کئے کہ کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گے ۔ اس بات میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم کی دو ٹوک خارجہ پالیسی نے بعض بڑے ملکوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور انہوں نے پاکستان کو زچ کرنے ‘ نقصان پہنچانے اور اپنی دانست میں تنہا رکھنے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کرنے کروانے کے منصوبے کے تحت نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بے بنیاد اور موہوم خوف میں مبتلا کرا کر کرکٹ کے شائقین کو گہری مایوسی سے دو چار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہدن بھی گزر جائیں گے رمیز راجہ نے کمال حوصلہ دکھایا ہے ۔ ویسٹ انڈیز ‘ سائوتھ افریقہ ‘ سری لنکا اور آسٹریلیا کے بعض کھلاڑیوں نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ثابت کیا ہے کہ پاکستان حق پر ہے ۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے مقتدروں کو ا ن کے ضمیر ایک دن ضرور یہ بات تسلیم کرنے پرمجبور کرے گی کہ کھیلوں کو سیاست سے دور رہنا چاہئے ۔ نسلی اور مذہبی تعصبات کے حوالے سے دنیا بھر میں بھارت مشہور تھا ‘ مغرب بالخصوص انگلینڈ وغیرہ تو اپنے آپ کو بہت جمہوری ‘ متمدن اور دیانتداری اور وعدوں کا پاس رکھنے والوں میں بہت فخر کے ساتھ شمار کرتے ہیں۔ لیکن واقعی سچ کہا ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور دراصل پاکستان سے ان لوگوں کو یہ توقعات نہ تھیں کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی اپنی مرضی و مفادات کے مطابق بھی کبھی چلائے گا۔ ان لوگوں کو عمران خان کی سمجھ اب آہستہ آہستہ ہو رہی ہے اور اپنی دانست میں وہ دبائو ڈالنے کی پالیسی استعمال کر رہے ہیں۔ اب ہمیں واقعی سخت محنت کرنے کی ضرورت ہو گی۔ پاکستان کرکٹ کو فرسٹ کلاس کی فہرست میں جگہ بنانی ہو گی اور ساتھ ہی پاکستان کو سائوتھ افریقن کرکٹر کی اس تجویز پر کہ اب ایک الگ نئی اور غیر جانبدار انجمن کرکٹ بنانے کی ضرورت ہے جو سیاست کے سایوں سے محفوظ ہو۔