Mashriqyat

مشرقیات

ہانڈی کی طرح ہم ابل پڑتے ہیں ادھر چولہا بند اور ادھر کڑاہی میں ابال بھی۔جوش وخروش میں عقل سے ہم پیدل ہوتے ہیںاور جوش بیٹھ جائے تو عقل لینے کی بجائے اپنی کم عقلی کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے ہیںیا پھر غصے میں یوٹرن لیتے ہوئے اپنے محبوب کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے چل پڑتے ہیں۔سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنا اس کو کہتے ہیں۔مطلب یہ کہ عقل ہمیں پھر بھی ہاتھ نہیں آتی۔
اسی جوش وخروش کا نتیجہ تھا جب ہم نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو دیوی بنا کے اپنے من میں بسالیا تھا۔ہم میںبہت سے ایسے بھی تھے جوجسیندرا آنڈرن کی اپنے ہاں کی مسلمان اقلیت سے اظہار یکجہتی دیکھ کر ہی انہیں کلمہ پڑھانے کے صلاح مشورے کر نے لگے تھے ظاہر ہے اس کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا رشتہ بھیجنے کا مرحلہ بھی آنا تھا۔بہرحال یہ جوش وخروش اب نہیں رہا اور جب سے نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ہم حالت سوگ میں ہیںاور اپنی کم عقلی کا ماتم کرنے کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کو سبق سکھانے کے ایک سے ایک نادر نسخے تلاش کرکے سوشل میڈیا پر پیش کیے جارہے ہیں۔جسیندرا آنڈرن اب ملکہ نہیں مائی ہے جس نے ہمارا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے اور ہم اتنے بے بس ہیں کہ سوائے سوشل میڈ یا پر اسے صلوٰاتیں سنانے کے کچھ اور نہیں کر سکتے۔۔اوہ۔۔مائی۔۔تیرا بیڑہ غرق ہو۔۔۔
اب آئیں اپنے احساس کمتری کے ایک اوررخ کی طرف۔۔۔۔۔برطانوی راج کے شہزادے آئے تھے تو ہم نے ان کی آئو بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ہما شما یعنی عام آدمی کی بات چھوڑیں وہ تو بے چارہ غم روزگار میں جانتا تک نہیں تھا کہ شہزادہ کب اپنی حسین وجمیل بیوی کے ساتھ آیا او رکس کس کا دل لوٹ گیا (آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کس کس کو الو بناگیا)۔لٹنے والوں میں زیادہ تر ہمارے حکام اعلی وبالا ہی شامل تھے۔اس دورے کو مثالی بنا کر ہم نے دن رات ڈھنڈورا پیٹا کہ پاکستان کتنا پرامن ملک ہے اور یہاں سیکیورٹی کا کوئی مسلہ نہیں ہے۔یہ ڈھنڈورا بھی کسی کام نہیں آیا اور لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم بے ننگ ونام ہیں،نیوزی لینڈ کے بعد ملکہ برطانیہ کے دیس کے گوروں نے بھی ہمیں انگوٹھا دکھا دیا ہے۔وہ بھی بقول چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز حسن راجہ کے ہمیں الوبنا کے۔سوال یہ ہے کہ کسی گورے کو اپنے ہاں دیکھ کے ہم اتنے بچھ یا ریجھ کیوں جاتے ہیں کہ گورا جب دل چاہے ہمیں الو بنا کے چلتا بنے اور بعد میں اس کی بے وفائی کے ہم المیہ گانے گا کر دنیا کو ایک اور ہنسی اڑانے کا سامان فراہم کردیتے ہیں۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ذہنی طور پر اب بھی غلام ہیں؟

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند