یہ نمبر ہیں یا بینک بیلنس؟

اس بار تو حد ہی ہو گئی ایک خوش قسمت طالبہ نے مردان تعلیمی بورڈ میں گیارہ سو میں گیارہ سو نمبر لے لئے۔ کاش ہم بھی زیادہ نہیں تو بس بیس سال بعد پیدا ہوتے تو امکان تھا کہ گیارہ سو میں گیارہ سو بیس نمبر لے لیتے کیونکہ بیس نمبر تو صفائی کے دینے ہی دینے تھے۔ کیا زمانے تھے آٹھ سو بیس نمبر لینے والا میٹرک سے ہی میڈیکل یا انجینئرنگ یونیورسٹی کے انتخاب میں پھنس جاتا۔ مطلب میڈیکل اور انجینئرنگ دونوں کی انتظامیہ گویا دروازے پر اس کا انتظار کرنے لگ جاتی۔ ویسے بھی دو سال بعد اسی نے تو جانا تھا۔ کیا کچھ بدل گیا ان بیس سالوں میں ایسے لگتا ہے کہ جس طرح سونے کی قیمت بڑھتی ہے اور روپے کی قدر گرتی ہے ویسے ہی بورڈ کے امتحانات میں نمبر کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں لگتا ہے میڈیکل اورانجینئرنگ کے لئے کم ہی پڑتے ہوں گے تب تو جس طرح ورلڈ کلاس کے کھلاڑی کسی گھٹیا ٹیم کے خلاف رنز کے ڈھیر لگا دیتے ہیں ویسے ہی اس بار طلبا و طالبات نے نمبروں کے ڈھیر لگا دیئے۔ اتنی حیرانگی تو طالبان کو اتنی جلدی کابل فتح دیکھ کر دنیا کو نہیں ہوگی جتنی اتنے بھاری نمبر اس بار میٹرک کے امتحانات میں طلبا و طالبات کو لیتے ہوئے مجھے ہوئی ہے۔ ایک جگہ نظر آئے ہمارے انتہائی محترم وزیر شہرام ترکئی صاحب خوشیاں جیسے ان کی آنکھوں سے چھلک رہی تھیں۔ سب خوش تھے اور کم ازکم اس مہنگائی اور بدانتظامی کے دور میں سینکڑوں والدین اور بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں دیکھ کر یقینا ہمیں بھی خوشی ہوئی۔ حالانکہ جلن بھی محسوس ہو رہی تھی۔ بہرحال کسی صحافی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اکثریتی بورڈز میں زیادہ تر پوزیشنوں پر نجی تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات ہی چھائے نظر آئے تو پوچھنا بنتا ہے کہ پھر ان سرکاری سکولوں کو بھی ہسپتالوں کی طرح ”خودمختاری”کے نام پر نجی تحویل میں کیوں نہ دیا جائے۔ ویسے محترم وزیر صاحب ان سرکاری سکولوں کے طلبا وطالبات اور ان کے والدین کیا سوچتے ہوں گے۔سیاسی زبان میں بولے تو یہ آپ کے محکمہ کے زیر انتظام سکولوں اور آپ کے نظام کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے۔ لگتا تو نہیں کہ اس کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد آپ کوئی فیصلہ کریں گے لیکن سیاسی زبان میں اس لئے عرض کیا کہ آپ کا تعلق سیاست کی دنیا سے ہے اس لئے کسی ٹیکنوکریٹ کی زبان استعمال کرنے سے گریز ہی کیا۔ذرا سوچیں جب بھی فرصت ہو کہ اب آگے جو یہ طلبا وطالبات اچھے کالجوں میں جائیں گے تو ظاہری بات ہے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ میں ان ہی میں سے طلبا وطالبات جائیں گے۔ گویا غریب کو یہ مان لینا چاہئے کہ اس کا بیٹا بیٹی اب کبھی ڈاکٹر اور انجینئر نہیں بنیں گے۔ خیر آج کل کا زمانہ اور سیاست تو اس حد تک آ گئی ہے کہ شاید کہا جائے کہ غریب کا بچہ یا بچی ڈاکٹر بنے گا تو پھر یہ دیہاڑی کون لگائے گا، شہر کی صفائی کا کام کون کرے گا، کلاس فور میں کون جائے گا، ڈرائیور، مستری کون بنے گا۔ واقعی یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب بھی دیا جائے کہ آپ کو پتا ہے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے خرچے کس حد تک بڑھ گئے ہیں۔ اب اگر غریب کا بچہ وہاں جا کر اخراجات برداشت نہیں کر پاتا تو ہو سکتا ہے وہ خودکشی کرلے یا پھر پیسے کمانے کے لیئے غلط راستوں پر چلے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ حکومت غریب کے بچے کی زندگی تباہ ہونے سے بچانا چاہتی ہے۔ یہ ہوتا ہے ویژن یہ ہوتا ہے نظام کو چلانا اور اس کے دور رس نتائج پر نظر رکھنا۔جیسے کہ مہنگائی کے حوالہ سے اس دلیل کی توقع رکھنی چاہئے کہ موجودہ حکومت نے دولت کی عزت ہی ختم کر دی۔ لوگ کہتے ہیں مہنگائی ہے لیکن روپیہ دیکھو ہر روز سستا ہو رہا ہے ذرا ڈالر کا پتا کرو کتنا مہنگا ہے۔ہمیں دراصل اپنے روپے کی قدر نہیں ہے اس لیئے ناراض ہوکر روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ واقعی ہم صحافی بھی بال کی کھال نکالتے ہیں۔ ہم سے ان پہاڑ جتنے نمبر لینے والوں کی خوشیاں شاید ہضم نہیں ہوتیں۔ ویسے پوچھنا یہ تھا کہ اتنے پرفیکٹ جواب کیسے تھے کیونکہ یہ تو صرف ریاضی میں ہی ممکن ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ طبیعات میں اردو، انگریزی، مطالعہ پاکستان وغیرہ میں اتنے زیادہ نمبر کہ عقل حیران ہو جاتی ہے۔ ہماری رائے میں تو ان طلبا وطالبات کی جوابی کاپیاں میوزیم میں رکھنے کے قابل ہیں۔ جن اساتذہ سے ان بچوں اور بچیوں نے سبق سیکھا ہے ان کے میٹرک کے نتائج دیکھ کر ان اساتذہ کو ان بچے بچیوں کی شاگردی میں دیا جائے تاکہ وہ انہیں سکھا دیں کہ پڑھائی کیسے ہوتی ہے اور اصل جوابات کیا ہیں۔ لیکن ان نتائج کو دیکھ کر ایک طبقہ کا خیال یہ بھی ہے کہ پہلے جس طرح گائوں کے ”انگریجی میڈیم ” سکولوں میں لگ بھگ تمام بچوں کو فرسٹ سیکنڈ تھرڈ (والدین کی حیثیت کے حساب سے)پوزیشنیں دی جاتی تھیں اور والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اب سرکاری مشینری نے بڑے پیمانے پر عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے ”ہال خریدنے”کا کلچر پروان چڑھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جس میں ابھی نجی سکولوں کا کلچر عام نہیں تھا۔ بورڈ کے عملہ کے ساتھ مل کر سرکاری عملہ کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی تھیں اور متمول خاندان کے چشم وچراغ مطمئن ہوکر ہال میں انتہائی اعتماد کے ساتھ امتحانی عمل سے گزرتے۔ ایسے امتحانی مراکز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ بھائی ہال بک چکا ہے۔ پھر نجی ادارے آئے۔ کمرشل ازم میں تو پھر مقابلے کی فضا ہوتی تھی۔ اس لیئے سکول مالکان بورڈ کے ساتھ مل کر پورے سیشن کا حساب کتاب کرتے۔ جب پہلی دس پوزیشنوں میں والدین کسی مخصوص سکول کے طلبا وطالبات کو فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے دیکھتے تو ظاہری بات ہے اس سکول کی ریٹنگ بڑھتی وہاں داخلوں کی تعداد بڑھتی اور دام تو بڑھنا ہی بڑھنا تھا۔ اب اس بار تو ایسے لگتا ہے کہ بورڈز کے مابین مقابلہ تھا۔ ایسے لگا کہ جیسے بورڈ بھی کمرشل ازم کا شکار ہو چکے ہیں۔ نمبروں کی یہ دوڑ ہمیں کہاں لے جائے گی یہ تو نہیں معلوم لیکن تعلیم کی قبر پر اب ہر سال عرس منانے کی تیاریاں کر لیجئے۔ اب علم نہیں، سوچ نہیں، اخلاق نہیں بلکہ بینک بیلنس کی طرح نمبر کسی طالب علم کی حیثیت اور معیار کا تعین کرنے لگا ہے۔میری طرف سے تو خدا حافظ، آپ اپنی اولاد کے نمبروں پر توجہ دیں۔