سازش ہی سازش

سازش تو ہمیں کہیں بھی دکھائی دے جاتی ہے یہ ہمارے قومی کردار کا خلاصہ ہے ۔ ساری دنیا ہمارے خلاف سازش کرتی محسوس ہوتی ہے کوئی ہمارے ملک میں آئے اور پھر بھاگ جائے کوئی سرے سے آنے سے ہی انکار کردے ‘ کوئی ہماری بات میں بات نہ کرے یا کوئی بات کر لے ‘ کسی کے کہنے سے ہمارے ملک میں کوئی تبدیلی رونما ہو جائے اور کسی کے کہنے میں کوئی اثر ہی نہ ہو ‘ ہم پر برے حکمراں مسلط ہوں یا کوئی کہے کہ میں برا نہیں ہوں اور عملاً کوئی کام سرانجام نہ دے سکے ۔ سب کی سب سازش ہوتی ہیں ‘ بات یہیں پہ موقوف نہیں یہ درون خانہ بھی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ دفتروں میں ایک افسر کی دوسرے افسر کے خلاف سازش ‘ ایک وزیروں کے جھتے کی دوسرے کے خلاف سازش ‘ اپوزیشن کی حکومت کے خلاف سازش ‘ ڈراموں میں ساس کی بہو کے خلاف اور بہو کی ساس کے خلاف سازش ‘ میاں کی ان دونوں کے خلاف اور ان دونوں کی کسی اور کے خلاف سازش ‘ سازش ہی سازش ہے اور یہ ہمارے ذہنوں کو مکمل گرفت میں لئے ہوئے ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سازش واقعی ہے یا محض کمزور ذہنوں کی اختراع ہے جو اپنے رویوں کی درستگی سے زیادہ اس کا الزام کسی نامعلوم کے سر تھوپنے کی خواہش سے جنم لیتی ہے ۔
پاکستان میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم آئی اور پھر اچانک ہی سر پر پیر رکھ کر بھاگ گئی ۔ ان کی پریشانی دیکھ کر برطانیہ نے بھی اپنا دورہ ملتوی کر دیا۔ ہمیں اس میں سازش دکھ رہی تھی ‘ غم و غصے کا اظہار جاری تھا کہ معلوم ہوا نیوزی لینڈ کے کھلاڑی کو دھمکی آمیز پیغام وصول ہوا اور اس پیغام کا منبع بھارت میں مل گیا ہے ۔ بات یہیں تک موقوف نہیں ویسٹ انڈیز کو بھی پاکستان آنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ احسان اللہ احسان کا نام استعمال ہوا اور امر اللہ صالح کے ساتھی نے اخبار میں مضمون لکھ کر بھی دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا۔ بے چارہ مغرب تو ویسے بھی بہت ڈرپوک ہے ‘ انہیں تو تیز چلتی ہوا سے ڈر لگتا ہے ۔ ان کے خوف کا عالم تو یہ تھا انہوں نے مارنباس کی انجیل کو محض اس لئے رد کر دیا تھا کہ وہ ان باتوں کو بیان کرتی تھی جواس وقت کے رومن حکمرانوں کی مرضی کے مطابق نہ تھی۔ بہرحال نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم آئی اور آکے چلی گئی پاکستان نے احتجاج کیا ‘ برطانیہ کی ٹیم نہ آئے گی ‘ احتجاج کیا جارہا ہے سازش جس کا بہت غلغلہ مچا تھا ‘ ہمیں مل بھی گئی اس کے باوجود اس بات سے مفر ممکن نہیں کہ کئی ایسی جگہوں پر بھی ہمیں سازش دکھائی دیتی ہے جہاں سازش کا کبھی دور سے گزر نہ ہوا تھا۔ بھارت کے کردار کے حوالے سے شک و شبے کی گنجائش نہیں اور ان کے سدھار کا کوئی امکان نہیں لیکن پھر بھی اسے اور اس کی حرکات کو بہت زیادہ اہمیت دینا کچھ ایسا مناسب نہیں۔ ایک حد تک وزیر اعظم کا قومی کرکٹ ٹیم کو مشورہ درست محسوس ہوتا ہے کہ ہماری ٹیم کو اپنی کارکردگی پر دھیان دینا چاہئے اور ایسی باتوں سے دل نہیں ہارنا چاہئے یہ درست ہے کہ کرکٹ اب ایک مکمل کمرشل کام ہے لیکن کئی بار ایک قدم پیچھے ہٹنا حکمت عملی کا تقاضا ہوا کرتا ہے ۔
سازشیں تو ہمارے خلاف ہوتی ہی رہینگی لیکن ہر ایک بات میں سازش تلاش کرے اور اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں سازش ضرورت سے زیادہ دکھائی دیتی ہے اور ہم اس کے خوف سے بہت زور سے چلاتے ہیں اس لئے پھر معاملات شیر آیا شیر آیا والی کیفیت کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔
پاکستان اور یہ خطہ اس وقت تبدیلی کے جس دور سے گزر رہا ہے اس میں سازشیں تو
ہونگی ۔ حکومت پاکستان نے بھی امریکہ کو جواب تو دے دیا کہ پاکستان کی سرزمین پر فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہ دیں گے ‘ اس سے بھی دل کہیں کہیں گھبراتا ہوگا۔ پھر ایک سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس حکومت میں شامل وزراء اکثر سیاسی پارٹیوں کے ٹھکرائے ہوئے لوگ ہیں۔ چند وزراء کے علاوہ کسی نے کبھی اقتدار نہیں دیکھا۔ انہیں یہ بھی نہیں کہ حکومت کا نظام قواعد و ضوابط کے تحت چلایا جاتا ہے ۔ وہ بادشاہت میں یقین رکھتے ہیں اور اپنی جگہ سب ہی چھوٹے چھوٹے بادشاہ ہیں تبھی تو کئی محکمے شکایت کرتے ہیں کہ وزیر صاحب کو پپرا کے قوانین کا علم ہی نہیں اور گرفت کا تو ان کی سمجھ بوجھ پر کوئی اثر ہی نہیں ۔ کئی لوگ دیگر قواعد کے ہاتھوں پریشان ہیں ہر ایک وزیر کی اپنی مرضی اور اپنی ہی حکمت عملی ہے ۔ پھرانہیں کسی بھی دائرہ کار کے پابند نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لئے حکومت کو اگر ا لیکشن کمیشن جیسا کوئی ادارہ کسی قاعدے کا پابند کرنے کی کوششیں کرے تو اس میں بھی انہیں سازش دکھائی دینے لگتی ہے ۔ حالانکہ بات صرف یہ سمجھنے کی ہے کہ قواعد و ضوابط منطق اور حقیقت سے مطابقت کے ساتھ ترتیب دیئے جاتے ہیں اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اپنی ہی غلطی پر اصرار کرنا مناسب طریقہ کار نہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی چاپلوس سے نہیں کسی ذی شعور سے بات سمجھ لی جائے اور جب بات پوری طرح سمجھ آجائے تو پھر تبصرہ کیا جائے اور اگر یہ معلوم ہو کہ پہلے سازش نہیں بلکہ ان کی اپنی سمجھ کی کچھ کجی تھی تو سمجھدار لوگوں کی طرح اپنے اس ادراک کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف بھی کرلیا جائے ۔ کیونکہ یقین کیجئے اتنی تہہ در تہہ سازش صرف فلموں میں ہوا کرتی ہے حقیقت میں سازش تو ہوتی ہے لیکن اس قدر نہیں کہ زندگی سٹار پلس کا ڈرامہ لگنے لگے ۔ تھوڑا سمجھ جانے اور ذہنی طور پر عمر بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ رویہ اتنا اچھا نہیں اور اس رویے سے کچھ بھی مثبت حاصل نہیں ہو سکتا اس سے صرف نقصان ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔
٭٭٭٭

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام