Imran Khan

عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب

ویب ڈیسک (اسلام آباد)وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب میں مسئلہ کشمیر، افغانستان کی صورتحال، اسلاموفوبیا، کووڈ 19، ماحولیات اور دیگر اہم امور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ جنابِ صدر! آپ کو اقوامِ متحدہ کے 76ویں اجلاس کیلیے منصبِ صدارت سنبھالنےپرمبارکباد دیتا ہوں، دنیا کو کووڈ ، معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے تین طرفہ چیلنج کا سامنا ہے، وائرس اقوام کے درمیان تفریق نہیں کرتا، نہ ہی غیر یقینی موسمیاتی رویوں کی وجہ سے آنے والی تباہیاں تفریق کرتی ہیں، درپیش مشترکہ خطرات نہ صرف بین الاقوامی نظام کی نزاکتوں کو آشکار کررہے ہیں بلکہ وہ انسانیت کےاتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں، پاکستان کووڈ کوقابو میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ مضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کےبرابر ہے، اس کے باوجود ہم ان دس ممالک میں سے ایک ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

انہوں نےکہا کہ ہم پاکستان میں جنگلات اگارہے ہیں، قدرتی آماجگاہوں کو محفوظ بنا رہے ہیں، قابلِ تجدید توانائی پر منتقل ہو رہے ہیں، شہروں سے آلودگی کا خاتمہ کررہے ہیں،ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلیے خود کو تیار کر رہے ہیں، کووڈ ، معاشی بدحالی اور موسمیاتی ایمرجنسی کا مقابلہ کرنے کیلیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں پہلے نمبر پرویکسین کی یکساں دستیابی ہے اور جتنا جلدی ممکن ہوہرشخص کو لگنی چاہیے، ترقی پذیر ملکوں کو مناسب فنانسنگ کی سہولت لازماً ملنی چاہیے، ترقی پذیر ممالک کی بدعنوان حاکم اشرافیہ کی لوٹ مار کی وجہ سے امیر اور غریب ملکوں کے درمیان فرق خطرناک رفتارسے بڑھ رہا ہے۔

وزیراعظم نے کہا فیکٹ آئی نے حساب لگایا ہے سات ہزار ارب ڈالر کے چوری شدہ اثاثے محفوظ مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپائے گئے ہیں،اس منظم چوری اور اثاثوں کی غیر قانونی منتقلی کے ترقی پذیر ملکوں پر دور رس منفی اثرات پڑے ہیں،ان کی حالت مزید پتلی ہوتی جاتی ہے،غربت کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے ، جب منی لانڈرنگ ہوتی ہے تو ان ملکوں کی کرنسی پر دباؤ پڑتا ہے اوراس کی قدر میں کمی ہوتی ہے، ہر سال ہزار ارب ڈالر ترقی پذیر ملکوں سے نکال لئے جاتے ہیں،نتیجتاً تلاش معاش کیلئے امیر ملکوں کی جانب ہجرت کرنے والوں کا بڑاسیلاب آئےگا،جو کچھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا، وہی کچھ ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ بدعنوان اشرافیہ کر رہی ہے، وہ دولت لوٹ کر امیرملکوں کے دارالحکومتوں میں منتقل کر رہے ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا ایسا خوفناک رجحان ہے جس کا ملکر مقابلہ کرنا ہے، نائن الیون کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا رہا جس سے دائیں بازو کے خوفناک اور پرتشدد قومیت پرستی کے رجحانات میں اضافہ ہوا، امید ہے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ ان اسلام مخالف رجحانات اور دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی جانب سے لاحق دہشت گردی کے نئے خطرات کا احاطہ کرے گی، سیکرٹری جنرل سے اپیل کرتا ہوں وہ اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کےلئے عالمی مکالمہ شروع کرائیں، اسلامو فوبیا کی سب سے خوفناک شکل بھارت میں پنجے گاڑھے ہے۔

مزید پڑھیں:  مسجد الحرام میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس روبورٹ زائرین کی رہنمائی کرینگے

وزیراعظم نے کہا کہ فاشسٹ آر ایس ایس،بی جے پی حکومت کے ہندوتوا نظریات نے بیس کروڑ مسلمانوں کےخلاف خوف اور تشدد کی لہرجاری کر رکھی ہے، وقفے وقفے سے قتلِ عام جاری ہے، شہریت کے امتیازی قوانین کا مقصد بھارت کو مسلمانوں سے پاک کرنا ہے،کوشش کی جارہی ہے مقبوضہ کشمیر کو مسلم اکثریتی علاقے سے مسلم اقلیتی علاقے میں بدل دیا جائے۔بھارتی کارروائیاں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے،بڑی طاقتوں کو علاقائی سیاسی معاملات اورکاروباری مفادات مجبور کردیتے ہیں کہ وہ دوست ممالک کی خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں۔

عمران خان نے کہا بھارتی بربریت کی تازہ مثال عظیم کشمیر رہنما سید علی شاہ گیلانی کی میت کو ان کے خاندان سے زبردستی چھین لینا ہے ان کی خواہش اور اسلامی روایات کے مطابق نماز جنازہ اور تدفین نہیں ہونے دی گئی، جنرل اسمبلی سے کہتا ہوں وہ سید علی شاہ گیلانی کی باقیات کی اسلامی روایات کے مطابق شہداءکے قبرستان میں تدفین کا مطالبہ کرے، بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنائے ، 5 اگست 2019 سے کیے گئے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات منسوخ کرے، کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر اورآبادی کے تناسب میں تبدیلیاں منسوخ کرے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور ممکنہ جنگ کو روکنا ضروری ہے، یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنائے، بھارت کی فوجی تیاری، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور عدم استحکام پیدا کرنے والی روایتی صلاحیتوں کا حصول دونوں ملکوں کے درمیان موجود ڈیٹیرنسس کو بے معنی کر سکتا ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال یعنی وہاں ہونےوالی تبدیلی کےحوالےسےامریکا اوریورپ میں بعض سیستدان پاکستان پرالزام تراشی کرتے رہے ہیں،اس پلیٹ فارم سےمیں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نےافغانستان کے علاوہ سب سےزیادہ نقصان اٹھایاہےوہ پاکستان ہےجب ہم 9/11 کے بعددہشت گردی کےخلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہوئے تھے،80 ہزارپاکستانی مارے گئےاورہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں 35 لاکھ افراد بےگھرہوئےاوریہ کیوں ہوا؟ ہم افغانستان کےخلاف جنگ میں امریکی اتحاد کےساتھ تھے جہاں افغان سرزمین سےپاکستان پرحملےکیے جارہے تھے۔

وزیراعظم نےکہاکہ ہمارے لیےکم از کم تعریف کاایک لفظ ہی کہاجاتا لیکن سراہنےکی بجائےتصورکریں ہمیں کیسا محسوس ہوتاہے جب ہم پر افغانستان کے واقعات کے حوالےسے الزام تراشی کی جاتی ہے، 2006 کےبعد یہ بات ہراس کےلیے واضح تھی جوافغانستان کوسمجھتاہےجوافغانستان کی تاریخ سے آگاہ ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہوگا، میں امریکا گیا میں نے تھنک ٹینکس کے ساتھ بات کی میں نے اس وقت سینیٹربائیڈن، سینیٹر جان کیری اور سینیٹر جان ریڈ سے ملاقات کی میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور سیاسی حل ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔

مزید پڑھیں:  وزیر داخلہ کی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات،دہشتگردی ختم کرنےکا عزم

عمران خان نے کہا اس وقت کسی نے یہ بات نہ سمجھی اور بد قسمتی سے فوجی حل تلاش کرنے میں امریکہ نے غلطی کی اگر آج دنیا یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیوں طالبان واپس اقتدار میں آ گئے ہیں تو اسے ایک تفصیلی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوگی کہ کیوں تین لاکھ نفوس پر مشتمل سازو سامان سے لیس افغان فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور یاد رکھیں کہ افغان قوم دنیا کی بہادر ترین قوموں میں سے ایک ہے اور اس نے مقابلہ نہیں کیا جس لمحے اس کا تفصیلی تجزیہ کیا جائےگا تو دنیا کو معلوم ہوجائے گا کہ طالبان اقتدار میں واپس کیوں آئے ہیں اور یہ پاکستان کی وجہ سے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا جناب صدر! اس وقت ساری عالمی برادری کو یہ سوچنا چاہیے کہ آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے، ہمارے پاس دوراستے ہیں اگر اس وقت ہم افغانستان کو پس پشت ڈال دیں گے تو افغانستان کے آدھے عوام جن کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اگلے سال تک افغانستان کے نوے فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ ہمیں آگے ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے جس کے سنگین اثرات افغانستان کے ہمسائیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہوں گے اگر غیر مستحکم اور بحران سے دوچار افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔

عمران خان نے کہا پہلی بات یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں کیوں آیا تھا؟ اس لیے آگے جانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کریں، طالبان نے کیا وعدہ کیا تھا، وہ انسانی حقوق کا احترام کریں گے، وہ مخلوط حکومت بنائیں گے، وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کو استعمال کرنے نہیں دیں گے اور انہوں نے معافی کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا اگر اب عالمی برادری ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کرے تو یہ سب کے لیے کامیابی ہو گی، کیونکہ یہ وہ چار چیزیں تھیں جب دوحہ میں امریکا کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے اور بات چیت کا محور یہی باتیں تھیں، اگر دنیا اس سمت میں آگے بڑھنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو امریکا اتحاد کی افغانستان میں 20 سال کے دوران کی جانے والی کوششیں ضائع نہیں ہوں گی کیونکہ افغانستان کی سرزمین بین الاقوامی دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے سب پر زور دوں گا کہ یہ افغانستان کے لیے نازک وقت ہے، آپ وقت ضائع نہیں کر سکتے، وہاں امداد کی ضرورت ہے، عالمی برادری کو اس مقصد کیلئے متحرک کریں، شکریہ۔