mushtaq

ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہو گا

وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری ‘ بدنصیبی ہماری یہ ہے کہ ہم نے نفرتوں کی دیواریں اس قدر اونچی کر لی ہیں کہ ہمیں صرف اپنا ہی نکتہ نظر درست ‘ اپنا ہی بیانیہ موقر لگتا ہے ‘ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کسی کی مخالفت میں جو رویہ ہم اختیار کر رہے ہیں اس سے متعلقہ شخص کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے یا نہیں مگر اس سے ہمارے وطن پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ‘ اس ضمن میں جو تازہ”واردات” کسی بدبخت نے ڈال دی ہے یعنی نون لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے حوالے سے جو خبریں اب اتنی وائرل ہوچکی ہیں کہ دنیا بھرمیں ہم نے خود کو طنز و استہزا کا نشانہ بنا دیا ہے ‘ اور جس کے مطابق اگرچہ میاں صاحب تو لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں تاہم ان کو لاہور میں کورونا ویکسین لگا بھی دی گئی ہے اور اس حوالے سے کوویڈ سرٹیفیکیٹ بھی جاری کر دیا گیا ہے ‘ یہ حرکت جس نے بھی کی ہے ممکن ہے وہ بھی دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میاں صاحب سے سیاسی اختلاف رکھتا ہو اور جس طرح ایک طبقہ میاں برادران اور ان کے خاندان ‘ کچھ لوگ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں ‘ کچھ کسی اور جماعت سے مخاصمت کی”بیماری” میں مبتلا ہو کر اپنے اپنے سیاسی مخالفین پر تبرہ تولنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ‘ اسی طرح وہ نظر بہ ظاہر تو میاں صاحب کو بدنام کرنے کے لئے اپنی سوچ کے مطابق یہ حرکت کر بیٹھا ہو ‘ اور دل ہی دل میں خوش ہو رہا ہو کہ اس نے میاں صاحب کی ”پگ” اچھال دی ہے ‘ ممکن ہے وہ اس سے ذہنی طور پر آسودگی محسوس کرتا ہو ‘ مگر وہ جوایک اور شاعر نے کہا ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو ‘ تو اس شخص نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی اس حرکت سے پاکستان پر کیا افتاد پڑ سکتی ہے اور دنیا بھر میں پہلے یہ پاکستان کے بارے میں جو منفی رویہ ہمارے دشمنوں کی سرپرستی میں پنپ رہا ہے ‘ اس میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے ‘ اگرچہ اس حوالے سے گزشتہ روز نون لیگ کی صفوں میں ہونے والے تبصروں میں سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے ‘ اور سوشل میڈیا پر بھی اس حرکت کی مذمت کی جارہی ہے مگرسوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا دشمن خاص یعنی بھارت اس کو لیکر پاکستان کے خلاف کس قسم کا منفی پروپیگنڈہ نہیں کر سکتا ‘ ممکن ہے اب تک بھارتی میڈیا حسب عادت و روایت لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آیا ہو اور پاکستان میں کوویڈ ویکسینیشن کے حوالے سے عالمی سطح پر شکوک و شبہات پیدا کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا رہا ہو ‘ پاکستان کے بارے میں پہلے ہی منفی رویہ موجود ہے جس کی وجہ سے پاکستانیوں پر بیرونی دنیا میں آنے جانے کی یا تو مکمل پابندیاں عاید ہیں یا جہاں ایسی صورتحال نہیں ہے وہاں قوانین اتنے سخت کئے جا چکے ہیں کہ ویزوں کے حصول اور سفری مشکلات پاکستانیوں کے آڑے آرہی ہیں ‘ ایسی صورت میں اور بھی کوئی نہیں میاں نواز شریف جیسی شخصیت کے حوالے سے جو ملک کے تین بار وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور ان کی عالمی سطح پر اپنی ایک پہچان ہے ‘ جعلی ویکسین سرٹیفیکیٹ کا سامنے آنا کتنا نازک معاملہ ہے ‘ دنیا پہلے ہی ہمارے ہاں کوویڈ سے نمٹنے کے حوالے سے ہمارے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ‘کورونا سے نمٹنے کے لئے جو بیرونی امداد ہمیں مل چکی ہے اس میں بدعنوانی کے الزامات بھی اب کوئی پوشیدہ امر نہیں ہیں ‘ اور اب جب ہم خود اپنے خلاف یہ گواہی دینے پرتلے ہوئے ہیں یعنی کسی کا مذاق اڑانے اور اسے بدنام کرنے کے لئے جعلی سرٹیفیکیٹ کے اجراء کے حوالے سے اپنی ہی اداروں کی ”ناقص” کارکردگی کے ثبوت دنیا کو فراہم کر رہے ہیں تو سوچئے ہم اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں مار رہے ہیں؟ ایک شخص سے نفرت نے ہمیں انسانیت کی پست ترین سطح تک کیوں پہنچا دیا کہ ہم بغیر سوچے سمجھے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے پر کمر بستہ ہو گئے ہیں ؟ یہ حرکت کسی ایسے شخص کی لگتی ہے جو ایک روایت کے مطابق لکھنوی نواب سعادت علی خان نے ”طائفہ دشنام” کے نام سے مرتب کر رکھا تھا اور اس طائفے کے ارکان کا کام نواب موصوف کے اشارے پر مخالفین کے خلاف گالم گلوچ کے ساتھ حرکت میں آتا تھا ان مغبچوں کے بارے میں مولانا محمد حسین آزاد نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے ”شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منہ کھول کر وہ بے نقط سناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے” ایسے لوگوں کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہو گا
یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہو گا
ان کو نصیحت کا اثر نہیں ہونے کا ‘ بلکہ ان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ حضور آپ کی مرضی ہے جس کو چاہیں برا بھلا کہیں ‘ اس کا مذاق اڑائیں ‘اس پر تبرہ تولیں ‘ آپ آزاد ہیں مگر اتنی عقل تو ہونی چاہئے کہ کسی کی مخالفت میں اس ملک کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہئے ‘ اس لئے اس قسم کی منفی سوچ سے تو بہتر ہے کہ اگر آپ کسی اور کو اچھا سمجھتے ہیں تو اپنے اسی ممدوح کی تعریفیں کرکے اس کے امیج کو بہتر بنانے پر توجہ دیں کیونکہ ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے اس قسم کے بیانیہ سے پاکستان دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچتا ہے ‘ اسی لئے تو کہا ہے کسی نے کہ
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
سوشل میڈیا پراٹھنے والے ان سوالوں کا جواب بھی ضروری ہے کہ نادرا کے نظام میں کیسے کسی نے نقب لگا کر اسے اس طرح ”ہائی جیک” کر لیا ‘ کہ میاں نواز شریف کے نام پر جعلی سرٹیفیکیٹ جاری ہو گیا ‘ بعض لوگوں کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ اس پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ چھان بین کرکے نہ صرف سسٹم کے اندر”کمزوری” کو دور کیا جائے بلکہ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اسے سامنے لا کر نشان عبرت بنایا جائے ‘ اس واقعے کے تناظر میں اگرچہ کچھ سیاسی حلقے اب یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر نادرا کے نظام میں یوں ” دخل در نامعقولات” یا”دراندازی” کی جا سکتی ہے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اٹھنے والے سوال کیوں کر غلط ہو سکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!