نیٹو کا زوال پذیر مستقبل

افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد روس پھر دوبارہ سنبھل نہ سکا۔ وارسا معاہدے کے ساتھ ساتھ سوویت یونین کی 16ریپبلکس کے درمیان بھی اختلاف جنم لیتے گئے۔ یہاں تک کہ روس کے اندر بھی یلستین جیسے رہنمائوں کو سوویت یونین ختم کرنے کے مطالبے پر زبردست پذیرائی ملنے لگی۔2001میں امریکہ نے جب افغانستان پر حملہ کرکے ملا محمد عمر کی حکومت ہٹاکر اپنی اور48ممالک کی افواج کو وہاں اگلے بیس سالوں کے لئے تعینات کیا تو تب اس نے نا صرف اپنا مستقبل دائو پر لگایا بلکہ ساتھ ہی نیٹو کو بھی اسی آگ میں جھونک دیا۔
نیٹو کے دو اہم ممالک جرمنی اور فرانس کی افواج افغانستان میں اس قدر فعال نہ تھیں جتنی امریکہ برطانیہ اور آسٹریلیا کی تھیں۔ فرانس کی افواج نے براہ راست مقابلوں میں کم سپورٹ کیا تھا یہاں تک کہ آپریشن ہراکلس میں بھی فرانس نے محض ایئر سپورٹ ہی فراہم کی تھی۔2010میں فرانس نے اپنے ستر فوجی پہلی بار”آپریشن مشترک”میں شامل کی تھی۔ اس کے بعد فرانس نے باقائدہ انخلا 2012میں ہی مکمل کردیا تھا جب کپسیا کے ایک ہوائی اڈے میں ایک افغان سپاہی نے 2فرانسیسی فوجیوں کو قتل اور16کو زخمی کردیا تھا۔ اسی طرح جرمنی کی فوج بھی طالبان سے براہِ راست مقابلوں میں زیادہ تر شامل نہیں تھی۔ جنگ جس قدر طویل ہوتی جارہی تھی اتنا ہی امریکہ کے یہ نیٹو اتحادی بیزار ہورہے تھے۔ فرانس اور جرمنی میں عوامی اپروول ریٹنگ جنگ میں شرکت کے خلاف آرہی تھی۔ لیکن جب بالآخر2021میں افغانستان کی جنگ بے سود ختم ہوئی تو اب نیٹو کے اتحادیوں نے سوچنا شروع کیا کہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد انہیں کیا ملا ؟ایک طرف وکی لیکس نے انکشاف کیا کہ امریکی خفیہ ادارہ این ایس اے دہائیوں سے جرمن حکومتی عہدیداروں بشمول وائس چانسلر انجیلا مرکل اور دیگر سیاستدانوں کے فون ٹیپ کرتا رہا کیونکہ ان کے مطابق امریکہ کو جرمنی کے روس کے ساتھ خفیہ مراسم ہونے کا شک تھا جبکہ دوسری جانب امریکہ نے برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر نیا دفاعی معاہدہ کیا جس کی وجہ سے آسٹریلیا کو فرانس سے اپنا40 ارب ڈالر کا نیوکلیئر آبدوزوں کا معاہدہ ختم کرکے امریکہ کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا پڑا۔ یہ خبر ایک نیوکلیئر بم کی طرح امانوئل مکخوان پر گری۔ فرانس کے غم و غصے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے احتجاجاً واشنگٹن میں ”جنگ کیپس”کی دو سو چالیسویں برسی منانے کے لئے جو ایونٹ کا انعقاد کرنا تھا اسے منسوخ کردیا اور اپنے سفیر تک امریکہ اور آسٹریلیا سے واپس بلوا لئے جو پچھلے ڈھائی سو سال میں پہلی مرتبہ فرانس اور امریکہ کے تعلقات میں اس قدر تلخی دیکھنے کو ملی ہے۔
ان تمام واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اب صرف اینگلو سیکسن ممالک (جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے)کو زیادہ ترجیح دے رہا ہے۔ افغانستان میں جرمنی اور فرانس کی عدم دلچسپی نے بھی امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ نیٹو میں دلچسپی لینا کم کرے۔ اس کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امریکہ کو اب روس سے شاید اتنا خطرہ نہیں جتنا سرد جنگ کے دوران تھا بلکہ اس وقت چین کی آسمانوں کو چھوتی ہوئی معیشت واشنگٹن کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے جسے صرف ان ممالک کے ذریعے ہی کاٹر کیا جا سکتا ہے جو چین کے قریب ہیں۔ آسٹریلیا نے جس طرح افغانستان میں فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا اور اس کی فوج جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی اس نے امریکہ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حال ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ نیٹو سرد جنگ کا ایک لفظ ہے جسے اب ماضی میں ہی رہنا چاہیے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ اب نیٹو ممالک کو ترجیح نہیں دے رہا۔ جرمنی نے پہلے ہی امریکی خواہشات کے برعکس روس سے نورڈ اسٹریم دوکا معاہدہ کرلیا ہے اور اب لگتا ہے کہ ایک اور مضبوط یورپین ملک فرانس کا جھکائو بھی روس اور چین کی جانب بڑھے گا۔ چناچہ بدلتے ہوئے اتحاد اور وفاداریاں اب دنیائے سیاست کا رخ بدل رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس نئے سیاسی منظرنامے سے فائدہ اٹھاکر تاج اپنے سر پہنے گا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس