maryam-gillani

ناقص منصوبہ بندی ‘ ریکارڈ توڑ نمبر اور ٹریفک

کچھ عام لوگ جوسوچتے ہیں ہمارے سرکاری ادارے اور خاص طور پر منصوبہ بندی و ترقیات کے اداروں کی سوچ ایسی کیوں نہیں خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں اور الجھائو حکومت اور عوام دونوں اور نہ ہی ملک کے حق میں اچھا ہے ۔ حیات آباد سے ایک گھریلو خاتون کی سوچ اور ان کے سوال پر میں سوچ میں پڑ گئی ہوں کہ اگر ایک گھریلو خاتون اتنا سوچ سکتی ہے اور مشورہ دے سکتی ہے تو یہ جو عالی دماغ بیورو کریٹ انجینئرز اور منصوبہ بندی تکنیکی مہارت والا عملہ ہے وہ اس قدر کند ذہن کیوں ہے یا پھر ان کو اس نظام سے سرورکار نہیں کہ چیزیں سادہ اور سہل ہو جائیں ۔ حیات آباد سے گھریلو خاتون کا کہنا ہے کہ آخر ہمارے ہاں سڑکیں بنانے اور خاص طور پر رہائشی سکیمیں بناتے ہوئے مستقبل کی یقینی ضرورتوں کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا۔ جو بھی گلی اور سڑک بنتی ہے اس کے اردگرد مارکیٹ اور گھر ہوں تو ان کے لئے سیوریج اور پانی کی لائنیں تو لازمی دینا ہوتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ان کی تعمیر شروع ہونے اور مالکان کے شہری اداروں کے چکر لگانے کا کیوں انتظار کیا جاتا ہے جتنے گھر ہوں ان گھروں کے اگر مدمقابل کنارے یعنی گلی اور سڑک کے دوسری طرف گیس ‘ پانی یا سیوریج کی لائنیں گزر رہی ہوں تو ہر گھر کے لئے گلی اور سڑک پختہ ہونے سے قبل پائپ کیوں نہیں ڈالے جاتے یہ کوئی مشکل کام نہیں حکومت اور شہری ترقی کے ادارے اپنی منصوبہ بندی میں اسے شامل کریں اور شہریوں کو موقع پر تیار سہولت فراہم کرکے سڑک کی بار بار کٹائی سے بھی بچائیں اور ان تیار سہولیات کی وصولیاں کرکے آمدنی کا ذریعہ بھی بنائیں۔ ایک اور یقینی پیغام تھوک کے حساب سے تعلیمی بورڈز سے نمبر لینے والے طالب علموں کے حوالے سے ہے انہوں نے سوشل میڈیا پر چلنے والا ایک پیغام بھی بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو طلبہ دن رات پڑھائی کرتے رہے ان میں سے کسی نے بھی کل نمبر
کے قریب قریب نمبر نہیں لئے اور جو سرے سے کلاسوں میں گئے نہیں ان طالب علموں نے ریکارڈ نمبر لے لئے تو کیا یہ اچھا نہیں کہ سکول کالج بند کردیئے جائیں تو طلبہ کو گھر پر آرام کا موقع بھی ملے گا اور نمبر بھی اچھے آئیں گے ۔ اسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے دوسری بات ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس بیج کے طالب علموں کو مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے ان کے مسابقت میں پیچھے رہنے کا پورا پورا امکان ہے سوائے ان کے جنہوں نے خود سے پڑھائی کی اور اپنی قابلیت بڑھائی ۔ اگرچہ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر تو نہیں اور سائنس میں تو اس کا امکان بھی نہیں مگر اعلیٰ تعلیم میں حیرت انگیز طور پر پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے والوں کی کارکردگی شاندار سامنے آئی ہے دیکھنے کو تو کسی استاد اور تعلیمی ادارے سے نہ سیکھنے اور پڑھنے کے باوجود یہ مشکل امر لگتا ہے لیکن پرائیویٹ پڑھنے والے قابل اور باخبر نکلتے ہیں اس کی وجہ کوئی اور نہیں سوائے اس کے کہ وہ خود پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںآگے بڑھتے ہوئے صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک کے مسئلے کے حوالے سے ایک قاری کا پیغام شامل کرتے ہیں جن کی دانست میں آبادی کا بڑھتا دبائو جب تک کم نہ ہو گا اور شہروں کی طرف مراجعت کی روک تھام نہ ہو گی شہر میں ٹریفک اور شہری سہولتوں پر دبائو کم نہ ہو گا۔ کوہاٹ روڈ پر دبائو اور رش کے باعث ٹریفک جام معمول بن گیا ہے بڈھ بیر تک رش کی وجہ جنوبی اضلاع سے آنے والی ٹریفک ہے جس کے بہائو کی راہ کی درجنوں رکاوٹیں ہیں جس کے پیش نظر اوور ہیڈ برج اور بائی پاس کی فوری تعمیر پر توجہ کی ضرورت ہے اسی طرح چارسدہ روڈ تا ناصر
باغ رنگ روڈ کی جلد سے جلد تکمیل شہر کی مرکزی سڑک پر ٹریفک کے دبائو کو تقسیم کر پائے گی لوڈ کانٹا نہ ہونے اور اضافی لوڈ کے باعث سڑکوں کی شکستگی معمول بن چکی ہے شہری حکام لاکھ دعوے کریں مگر ان کی ہر منصوبہ بندی ناقص اور عملی طور پر ناکام ٹھہرتی ہے شہر میں ٹریفک کے نظام کی اصلاح کے لئے ایسے ماہرین سے رائے لی جائے جو دفتروں میں بیٹھ کر رائے دینے والے نہ ہوں بلکہ ایک ماہ دو ماہ شہر کی ٹریفک کے روزانہ آٹھ دس گھنٹے جائزہ لینے کے بعد حل تجویز کریں تو شاید بہتری کی گنجائش نکل آئے ایک قاری نے بجلی کے بلوں پر ٹیکس کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اثرات بل جمع کراتے وقت تو بل جمع کرانے والے ہی کی ناراضگی میں تو واضح ہیں ہی جب ان کے اثرات کو صنعت کار دکاندار اور کاروباری طبقہ قیمتوں میں شامل کرکے عوام کو منتقل کریں گے اور سیلاب کی صورت میں جو مہنگائی آئے گی اس سے یا تو عوام نابود ہو جائیں گے یا پھر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے ظاہر ہے آئی ایم ایف کی شرائط ہیں جو خطے کے بدلتے حالات میں امریکا کی ایما پر پاکستان کو مزید مشکلات سے دو چار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دے گا۔ واقعی مہنگائی اتنی ہوچکی ہے کہ اب عام آدمی کو نان جویں بھی بمشکل میسر ہے آگے کیا ہو گا اس کا تو سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے ہر آدمی اس پریشانی میں ہے کہ اس کی آمدن قلیل اور اخراجات کثیر ہیں توازن کی کوئی صورت نہیں نکلتی اور توازن ہے کہ ایک ہی طرف پلڑا جھکائے رکھا ہے حالات روز بروز گھمبیر ہوتے جارہے ہیںعوام کے کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جو روز اول سے لاینحل ہیں ان کا حل حکومت چاہے بھی تو اس کے پاس نہیں اور یہاں عالم یہ کہ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا؟۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟