Shazray

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے

کورونا ویکسی نیشن اور کورونا سے متاثرہ افراد کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کی
ٹیسٹنگ کی شرح پر حکومت کا اظہار ناپسندیدگی کافی نہیں اور نہ ہی نتائج پر مبنی اقدامات کرنے کی ہدایت مسئلے کا حل ہے ہمارے نمائندے کے مطابق کورونا سے متاثرہ افراد کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کو ٹیسٹ کرنا کوروناآپریشن کا ایک ہم جزو ہے لیکن ٹیسٹوں کی شرح صرف3.2فیصد سے3.6فیصد ہے دوسری طرف کورونا سے بچائو کی ویکسی نیشن کا سلسلہ بھی سست رفتاری کا شکار ہوا ہے صوبہ کے بڑے شہروں یعنی پشاور میں اب تک صرف18.17فیصد، مردان میں18.54فیصد جبکہ صوابی میں17.34فیصد اور نوشہرہ میں16.85فیصد لوگ ویکسی نیٹ کئے گئے ہیں۔صوبے کے مرکزی شہروں جہاں آبادی گنجان اور ویکسین لگانے کی سہولیات نزدیک ہیں وہاں کے مقابلے میں چترال جیسے پھیلی ہوئی آبادی والے علاقے میں ویکسین لگانے کی شرح کا سب سے زیادہ ہونے سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ صرف حکومتی اقدامات اور انتظامات ہی اہمیت کے حامل عوامل نہیں بلکہ عوام کا باشعور اور تعاون پر آمادہ ہونا بھی خاص طور پر اہمیت کا حامل معاملہ ہے جس طرح کی صورتحال بیان کی گئی ہے اس میں سوائے اس بات کے اور کوئی چارہ نہیں کہ حکومت گھر گھر ٹیمیں بھیج کر لوگوں کو زبردستی ویکسین لگوائے بعض لوگوں کی ہٹ دھرمی پر پوری آبادی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا جن حکومتی پابندیوں کا عندیہ دیا گیا ہے اس میںسختی لائی جائے المیہ یہ ہے کہ حکومتی اعلانات پر عملدرآمد ایک دن سے زیادہ نہیں ہوتا بی آر ٹی میں صرف ایک ہی دن سفر کرنے والوں کے سند چیک کئے گئے جبکہ تنخواہوں کی بندش ‘شناختی کارڈ کی معطلی ‘بینک اکائونٹ کی معطلی اور عوامی مقامات پر جانے کی ممانعت وغیرہ وغیرہ جیسے اعلاات پر اگرسنجیدگی سے علمدرآمد کی تیاری نہ کی جائے تو ان اعلانات کی حقیقت بھی ھیچ ہی ہو گی۔
مصالحتی کمیٹیوں کا احسن کردار
صوبائی دارالحکومت کے نواحی علاقہ بڈھ بیر میں تنازعات کے حل کیلئے قائم مصالحتی کمیٹیوں (ڈی آر سیز) کی6ماہ کے عرصے میں جائیدادسمیت سینکڑوں کی تعداد میں مختلف نوعیت کی درخواستیں نمٹا نے کا عمل قابل تقلید ہے6ماہ کے دوران مختلف نوعیت کے 81 تنازعات افہام تفہیم کے ذریعے حل کرنا حوصلہ افزاء امر ہے جن میں جائیداد ، فیملی،رقم اوردیگر تنازعات سے متعلق درخواستیں شامل تھیں۔ تھانوں کی سطح پرمصالحتی عدالتوں سے رجوع کرنے کے لئے لوگوں کو شعور دینے اور ان کو اس جانب متوجہ کرنے پر مزید توجہ دی جائے تو لوگوں کو مقامی طور پر سستے اور سہل انصاف کا حصول اور تنازعات کو بروقت نمٹانے کی سہولت حاصل ہو گی جو وقت کی اہم ضرورت ہے اس طرح سے جہاں لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے گی وہاں عدالتوں پر بھی مقدمات کا بوجھ کم ہو گا جس سے دوسرے مقدمات کو جلد نمٹانے کے مواقع ملیں گے ۔کوشش کی جائے کہ ہر تھانے کی سطح پریہ سہولت دستیاب ہو اور عوام کا ان پر اعتماد بڑھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے تنازعات انہی کے ذریعے طے کرنے کو ترجیح دیں۔
بابائے قوم کے مجسمے کی بے حرمتی کا مذموم عمل
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے میرین ڈرائیو پر نصب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمے کو بم سے اڑا دینے کا واقعہ ہر محب وطن پاکستانی کے لئے تکلیف دہ امر ہے بانی پاکستان کا مجسمہ رواں سا ل جون میں گوادر کے میرین ڈرائیو پر نصب کیا گیا تھابعض عناصر کی حکومت سے اختلافات اور سکیورٹی اداروں کے کردار سے ان کو ا ختلاف ہو سکتا ہے لیکن کسی بھی پاکستانی سے اس امر کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بابائے قوم کی تصویر سے نفرت کا اظہار کرے ۔ اس طرح کے عناصرجو بھی ہوں اور جس نام سے بھی ایسی مذموم حرکت کے مرتکب ہوں ان کا جدید سائنسی ذرائع و آلات سے کھوج لگا کر عوام کے سامنے ان سے اقرار لینے کے بعد ان کے مقدمے کو عدالت میں لیجانے کی ضرورت ہے اس سنگین نوعیت کے واقعے کے بعد علاقے میں چھان بین اور تحقیقات کے عمل کے دوران مقامی افراد کے لئے بھی مشکلات کا باعث ہونا فطری امر ہے جن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان عناصر کے بارے میں انتظامیہ کو معلومات دیں حکومت کو بابائے قوم کے مجسمے کی حفاظت کے لئے تہہ در تہہ سکیورٹی اور جدید آلات لگا کر یقینی بنانے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔شرپسند عناصر کو جواب دینے کے لئے محب وطن پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ بابائے قوم کے مجسمے کی جگہ جمع ہو کر اظہار یکجہتی کرنے کی ضرورت ہے جولوگ بھی بلوچستان جائیں وہ اس جگہ جانے کو معمول بنائیں جہاں بابائے قوم کا مجسمہ نصب ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب