Shazray

بیروزگاروں کی صحیح تعداد کا ہی علم نہ ہو تو!

سرکاری اعداد و شمار سے ڈھائی گنا زیادہ بے روزگاری کا انکشاف کوئی انکشاف اس لئے نہیں کہ حکومت کو نہیں تو عوام کو اس کا بخوبی اندازہ ضرور ہے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی کے اجلاس میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمینٹ اکنامکس کی جانب سے ملک میں بیروزگاری سے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد ساڑھے 6فیصد ہے لیکن ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد16فیصد ہے، ملک میں24فیصد پڑھے لکھے افراد بے روزگار ہیں۔بیروزگاری کے سنگین مسئلے سے نمٹنے کی اس حکومت سے توقع ہی کیا رکھی جائے جس کو درست اعداد و شمار ہی معلوم نہ ہوں اگر اعداد و شمار درست ہوتے بھی تو بھی ہمارے ہاں بیروزگاری کو تقریباً لاعلاج مرض قرار دیا گیا ہے یہاں میرٹ پر کم ہی لوگوں کو ملازمت ملتی ہے باقی ملازمتوں کی کسی نہ کسی طرح بندر بانٹ ہوتی ہے بیروزگاری کی دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ اگر امیدواروں کی استعداد اور مہارت کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ آجروں کو مطلوبہ قابلیت و استعداد اور کام کے امیدوار نہیں ملتے جبکہ دوسری جانب دیکھا جائے تو بیروزگاری کی شرح بے قابو ہے ملک میں تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول رہ گیا ہے ہنرمندی اور قابلیت جب ثانوی چیز سمجھی جانے لگے تو پھربیروزگاری تو ہو گی بہرحال ان امور سے قطع نظر حکومت اگر نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں مشکلات کا شکار ہے تو کم از کم اعداد و شمار ہی درست کی جائے۔
عوام آئس ڈیلروں کیخلاف مظاہرے پر مجبور کیوں؟
پشاور کے شہریوں کا آئس ڈیلرز کیخلاف احتجاجی مظاہرہ پولیس اور انسداد منشیات کے اداروں کے منہ پرطمانچہ ہے۔مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ آئس نشہ ہر قسم کے جرائم کی جڑ ہے اور آئس نشہ پورے معاشرے کیلئے تباہی کا سبب ہے جبکہ یونیورسٹیوں اور کالجز میں بڑی تعداد میں طلبا ء اسکے عادی ہونے لگے ہیں اور آئس نشہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جو افسو س ناک ہے ۔مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آئس ڈیلرز کو گرفتار کر کے پھانسی کی سزا دی جائے جس شہر میں منشیات فروشوں کے خلاف عوام سڑکوں پر نکلنے پرمجبور ہوں اس شہر میں قانون کا سوالیہ نشان ہونا فطری امر ہوگا ۔مظاہرین کی جانب سے آئس ڈیلرز کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی نوبت کیوں آئی کیا پولیس اور متعلقہ اداروں نے ان کی نہ سنی یہ کیسے ممکن ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں اتنی اندھیر نگری ہو کہ شہریوں کی جانب سے توجہ دلانے کے باوجود پولیس اور متعلقہ اداروں نے نوٹس نہ لیا ہوبہرحال مظاہرہ سے اس بات کا اظہار بہرحال ہوتا ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں منشیات کے خلاف حکام کی کارروائی سے شہری ناخوش ہیں مظاہرین کی نیت پر تو شبہ کی گنجائش نہیں اس کے باوجود ان سے بہرحال استفسار کی ضرورت ہے کہ وہ احتجاج پر کیوں مجبور ہوئے ۔ ان کے الزامات میں حقیقت ہوئی تو یقیناً ان کو منشیات کے سوداگروں کے ٹھکانوں کا بھی علم ہوگا مشرق ٹی وی کے ایک نمائندے نے بھی اسی طرح کی ایک سعی کر چکے ہیں بہرحال حکام سنجیدہ ہوں اور منشیات کے سوداگروں کو گرفتار کرنا چاہیں تو راستے بہت مگر ایسا کرے کون؟۔
یک نہ شددو شد
پشاور میں ڈینگی کے پھیلائو کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ روز شہر کے18علاقوں سے163کیس رپورٹ ہوتے ہیں جس سے خطرناک شرح اور ڈینگی کے بے قابو ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے جبکہ صوبے کے دیگر اضلاع سے32کیس رپورٹ کئے گئیاس وقت ڈینگی کا پھیلائو ہی مسئلہ نہیں اس کی روک تھام میں ناکامی اور لاروے کو بروقت تلف نہ کرکے ہی غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس سے سنگین امر یہ ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کے لئے ہسپتالوںمیں آئسولیشن وارڈ قائم نہ ہونے کے باعث ڈینگی کے مریضوں کو گھر واپس بھیجوایا جارہا ہے اس وقت سرکاری ہسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے قابل ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر ڈینگی کا پھوٹ پڑنا یک نہ شد دو شد کے مصداق سنگین امر ہے جس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کے لئے ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے لئے بھی علیحدہ وارڈوں کا انتظام کیا جا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب