Mashriqyat

مشرقیات


اسے تبلیغی جماعت پر منفی تنقید نہیں مثبت تنقید کے زمرے میں لیا جائے کہ ہمارے ہاں تبلیغ اب رواج بنتا جارہا ہے اس کے رواج بننے پر اعتراض نہیں لیکن اس کے پراثر نہ ہونے پر دل کو رنج ضرور ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عملی تبلیغ نہیں کرتے کردار سے تبلیغ نہیں کرتے زبانی کلامی تبلیغ میں اثر نہیں اگرعملی تبلیغ شروع ہو جائے تو اس کے پراثر ہونے میں کلام کی گنجائش نہیں برصغیر میں اسلام پھیلنے میں عملی تبلیغ اور بزرگان دین کا بڑا عمل دخل ہے جس کے احیاء کی ضرورت ہے۔عملی تبلیغ کی ایک مثال ملاحظہ ہو اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ انگلینڈ کے ایک پارک میں بیٹھے تھے کہ ایک تبلیغی جماعت کے کچھ نوجوان چہل قدمی کرتے پارک میں آئے، اتنے میں مغرب کا وقت ہوگیا تو انہوں نے وہیں جماعت شروع کردی ۔ ان کو دیکھ کر نوجوان لڑکیوں کا گروپ وہاں سے گزرا ان کے پاس پہنچا اور نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔ نماز ختم ہوتے ہی ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی نے سوال کیا کہ تم نے ابھی کیا عمل کیا ؟ نوجوان نے بتایا کہ ہم اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے تو لڑکی نے پوچھا آج تو اتوار نہیں ہے تو آج کیوں کی ؟ نوجوان نے اسے بتایا کہ یہ ہم ہر روز دن میں پانچ بار عمل کرتے ہیں تو لڑکی نے کہا کہ باقی کام پھر کیسے کر لیتے ہو؟ اس نوجوان نے مکمل طور سے پوری بات سمجھائی ۔ بات ختم ہونے پر لڑکی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں آپ کو چھو نہیں سکتا ۔یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے اور یہ صرف اسے ہی چھو سکتا ہے ۔ یہ سن کر وہ لڑکی زمین پر لیٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روتے روتے بولی اے کاش!یورپ کا ہر نوجوان بھی اسی طرح ہوتا تو آج ہم بھی کتنے خوش ہوتے ۔ پھر بولی کہ واہ کتنی ہی خوش نصیب ہے وہ لڑکی جس کے تم شوہر ہو یہ کہہ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی ۔ نوجوان اپنے عمل سے وہ تبلیغ کر گیا جو کئی کتابیں لکھنے سے بھی نہیں ہوتے بے شک عزت اور سربلندی اسلام ہی میں ہے۔ہم خود سدھرتے جائیں گے تو یقین جانئے یہ معاشرہ بھی پاکیزہ تر ہوتا چلا جائے گا ۔ سگے رشتوں میں بھی ایک ادب کا لحاظ رہتا ہے ۔ ایک دوسرے کے کمروں میں جانے کیلئے اوقات کا ، دروازہ بجا کر آگاہ کر کے جانے کا حکم جب ہمارا دین دیتا ہے تو ہم اتنے بے باک کیسے؟ کہ ان احکامات کو پسِ پشت ڈال کر جو جی میں آتا ہے کر گزرتے ہیں ۔ نہ شرم نہ لحاظ نہ ادب نہ احترام تو بندہ پھر یہ کیسا مسلمان ؟ ہماری سواریاں ، ہمارے بیٹھنے کے انداز اوپر سے ہمارا لباس ، محرم نا محرم کا تک کوئی لحا ظ نہیں اسکو برائی بھی تصور نہیں کیا جا رہا ہو تو بتائیں عملی تبلیغ کی باری کیسے آئے گی؟

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی