عمران خان کے وژن کا ایک اورامتحان

تبدیلی کے بینر تلے آزادکشمیر میں مرکز ،پنجاب ،خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان کے بعد آزادکشمیر میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے زیر اہتمام تبدیلی کب آتی ہے ؟یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر تبدیلی کا روڈ میپ سامنے آنا شروع ہوگیا ۔آزادکشمیر میں تبدیلی کے لئے بہت کچھ ہے کہ کیونکہ گھنے جنگلات ،سرسبز پہاڑوں آبشاورں اور لہلاتے کھیتوں کے اس زرعی معاشرے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ بانجھ بنانے کی ایک طویل کہانی ہے ۔اب آزادکشمیر کابینہ کے پہلے اجلاس میں اصلاحاتی ایجنڈے کا اعلان کیا گیاہے ۔جس کے تحت چھ ماہ کے لئے حکومت کے مختلف اہداف مقرر کئے گئے ہیں جن میںسالڈ ویسٹ مینجمنٹ ،بلدیاتی انتخابات کی تیاری،بجلی وپانی کی فراہمی،مظفرآباد ،راولاکوٹ اور میرپور کو سیف سٹی بنانے،استور کیل سڑک اور شونٹھر ٹنل کی تعمیر جیسے اہداف شامل ہیں۔نومنتخب حکومت نے اپنے لئے اہداف مقرر کرکے ایک اچھی ابتدا کی ہے کم از کم اس سے حکومت کی سمت کا تعین ہو گیا ہے مگر سمت کے تعین کے بعد اب اس جانب عملی پیش رفت کا مرحلہ اہم ہے ۔حکومت کے ایجنڈے میں ایک چیز نظر نہیں آتی وہ ہے آزادکشمیر کے عام آدمی کو پیداواری عمل کے ساتھ دوبارہ جوڑنا ہے ۔یہ وہ عمل ہے جو آزادکشمیر کو خودکفالت کے راستے پر ڈال سکتا ہے ۔ابھی تک آزادکشمیر کی حیثیت ایک ”پیراسائٹ ” سٹیٹ کی سی ہے ۔جس کی اپنی کوئی پیداوار ،کوئی سپیشلٹی کوئی پہچان نہیں ۔اس کم مائیگی کا احساس اس وقت نمایاں ہوا تھا جب سری نگر مظفر آباد تجارت کا آغاز ہوا تھا ۔اس وقت آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی چار وناچار راولپنڈی کی مارکیٹ سے مال پر آزادکشمیر کی مہر لگا کر کنٹرول لائن پار دھکیل دیا جاتا تھا ۔یوں یہ سری نگر مظفر آباد کی بجائے سری نگر راولپنڈی تجارت ہو کر رہ گئی تھی۔اس کم مائیگی اور بے بسی سے آزادکشمیر کے حکمران طبقات نے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے عوام کو مزید پیراسائٹ بنانے کا عمل جا ری رکھا ۔پیدواری عمل کے ساتھ وابستگی آزادکشمیر کے عوام کی جبلت میں ہے ۔ان میں بہت سے تابوتوں میں بند ہو کر گھروں کو واپس آتے رہے ۔آزادکشمیر سے اس وقت پاکستان بالخصوص پوٹھوہاری علاقے میں نقل مکانی کرنے کا عمل جاری ہے ۔لوگ اپنی زمینیں اور ہرے بھرے کھیت کھلیان چھوڑ کر راولپنڈی کے ایسے دور افتادہ علاقوں میں بسیر اکرنے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک نہیں ہوتیں۔زمین سے آلودہ پانی بور نگ کے ذریعے نکال کر استعمال کر تے ہیں اور جو کئی طرح کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔آزادکشمیر پونچھ کے ایک معروف پولٹیکل سائنٹسٹ جمیل مقصود بیلجئم میں مقیم ہیں ان کی ایک تحقیق کے مطابق آزادکشمیر سے نقل مکانی کی وجہ تعلیم ،صحت کی سہولیات کی کمی ہے۔آزادکشمیر کے تیس لاکھ لوگ پنجاب کی پیدواری صنعت کی منڈی بن کر رہ گئے ہیں۔2010میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق راولپنڈی سے روزانہ پچاس لاکھ کی سبزی آزادکشمیر جاتی تھی ۔ معاشرے میںکینسر جیسے موذی مرض کی بڑھنے کی ایک وجہ مضر صحت اشیائے خوردونوش بھی ہیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے پہاڑی علاقے میں جہاں کسی دور میں واسط عمر نوے سے ایک سو دس سال ہوتی تھیں اب گھٹ کر پنتالیس سے پچاس سال ہو کر رہ گئی ہیں۔حد تو یہ کہ جو ٹرک سبزی فروٹ لے کر آزادکشمیر آتا ہے وہ خالی واپس جاتا ہے ظاہر ہے جواب میں یہاں سے لے جانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔یہ انتہائی شرمندگی کا مقام ہے کہ زرعی شعبے میں ایک خودکفیل علاقہ چند دہائیوں میں مکمل پیراسائٹ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔اب اس کا حل یہی ہے کہ عام آدمی کو دوبارہ اپنے باپ دادا کی روایت کے ساتھ جوڑا جائے جو پیداواری عمل تھا ۔اس سے جہاں آزادکشمیر سے نقل مکانی کا عمل رک سکتا ہے وہیں لوگ موذی امراض سے بچ کر اپنا بجٹ بھی بچا سکتے ہیں۔پیراسائٹ ہونے کی رسم وریت کا نتیجہ ہے کہ آزادکشمیر میں کوئی مضبوط سیاسی کلچر اور روایات جنم نہیں لے سکیں ۔خودکفالت سے محروم معاشرہ اپنے سیاسی حقوق کو پہچان سکتا ہے نہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کر سکتا ہے ۔اس حالت زار نے آزادکشمیر میں سورج مکھی سیاسی کلچر کو جنم دیا ہے ۔لوگ ہر پانچ سال بعد ایک نئی پارٹی کے نعرے لگاتے ہیں۔ہر آنے والے کو خوش آمدید کہنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں مگرجانے والے کو الوداع کہنے کا تکلف نہیں کرتے۔معیشت بہتر ہوئے بغیر اپنے سیاسی حقوق کے لئے کھڑا ہونا ممکن نہیں ہوتا ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کے تمام علاقوں میں لوگ پیداواری عمل سے جڑے ہیں ۔وہ سال کی زیادہ تر غذائی اجناس خود پیدا کرتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ معاشی طور پر خودکفیل عوام آج تیس سال سے زیادہ وقت سے بھارت کے مقابل کھڑے ہیں ۔وادی کے عوام اگر چھ ماہ کا محاصرہ اور آئے روز کی ہڑتالیں جھیلتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی خودکفالت ہے ۔وہاں نوکریوں او رکاروبار کے باوجود لوگوں نے اپنی زمین سے رشتہ ختم نہیں کیا۔آنے والے دنوں میں فوڈ سیکورٹی ایک بڑا مسئلہ بننے جا رہا ہے اور آزادکشمیر میں تبدیلی کی علمبردار حکومت اگر اس جانب توجہ دے کر حقیقی منصوبہ بندی کرے تو آزادکشمیر کے عوام پر ایک احسان ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟