خود پرستی اور خود غرضی

خود پرستی اور خود غرضی میں فرق

ہمارے معاشرے میں خود پرستی اور خود غرضی عام ہو چکی ہے۔ معاشرتی رویوں میں اس قدر بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ کسی کام کی غرض سے کہیں بھی چلے جائیں، اول تو ہر ایک اپنی ذات میں گم ہے اور سیدھے منہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ بہر طور کوئی معاملہ طے کرنا بھی پڑ جائے تو طرفین اپنی اپنی غرض اور مطلب نکالنے کے در پے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس رویہ نے اقدار کو بھی متاثر کیا ہے اور ساتھ ہی گھریلو، کاروباری اور معاشرتی زندگی اُلجھن کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ انسانی ضرورتوں میں ایک دوسرے کی عملی ہمدردی، امداد و اعانت اور احسان و سلوک پر انسانی معاشرہ قائم ہے۔ انسانی اخلاق کا ایک پہلو نرمی، لطف و محبت اور مدارات ہے۔ یعنی ہر معاملہ میں خود غرضی کی بجائے احسان کرنا چاہیے اور اپنی ذات کی محبت سے بالا ہو کر دوسروں سے نرم اور میٹھی بات کی جائے۔ اپنے آپ سے محبت کو خود پرستی کا نام بھی دیا جاتا ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دوسروں کے ساتھ محبت کرنے کی نفی ہے۔ عموماً یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ دوسرے سے محبت کرنا تو ضرور محبت یا عشق ہے مگر اپنے سے محبت کرنا خود پرستی اور خود غرضی ہے۔ فرائیڈ جیسے ماہر نفسیات نے بھی اپنی ذات سے محبت کو نارسی سزم یا نرگسیت کا نام دیا ہے۔ نارسی سزم کا لفظ ایک یونانی دیو مالائی کردار کے نام نارسی سس سے نکلا ہے۔ نرگسیت دراصل انسانی ذہن کی بہت ہی ابتدائی سطح کا رویہ ہے لیکن عمر کے بڑھنے پہ بھی اگر نرگسیت کا اثر قائم رہتا ہے تو بندہ خبطی اور نامعقول بن جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست اپنے چچا کی نرگسیت سے بڑے تنگ تھے۔ وہ اپنے ہر پہناوے، چال ڈھال،مال تال اور اپنی سج دھج کے آگے کسی کو خاطر میں نہ لاتے بلکہ اپنے رنگ روپ پہ تو اس قدر مر مٹے تھے کہ آئینہ سامنے رکھتے ہی وہ ”آفرین آفرین” کہے جاتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی ذات سے اس طرح محبت کرنا اور دوسرے کو کسی شمار میں نہ لاناواقعی خودغرضی ہوتی ہے۔
علاوی ازیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ جدید دور میں انسان کی خود غرضی اس کی جذباتی اور فہم و دانش کی امکانی قوتوں سے واسطہ رکھتی ہے ؟ یا انسان نے سرمایہ دارانہ نظام کا پرزہ بن کر اپنی ذات سے محبت کرنا چھوڑ تو نہیں دیا؟ اِن سوالات کے جواب کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اپنی ذات سے محبت اور خود غرضی ایک ہی رویہ ہے یا ان دونوں میں کوئی فرق بھی پایا جاتا ہے۔ مارکس اپنی ذات سے محبت کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتا ہے جتنا کہ محبوب کے ساتھ عشق کو سمجھتا ہے۔ وہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی ذات سے عشق کرنا بھی ایک انسان سے ہی محبت کرنا ہے۔ یوں وہ اپنی ذات اور محبوب کے عشق کو ایک ہی عمل کے دو رخ قرار دینا چاہتا ہے۔ کسی کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو تباہ کرنا بھی محبت کا عمل کم اور اپنی آزادی اور خود مختاری کو ختم کرنے کا عمل دکھائی دیتا ہے۔ انسانیت کا ایک بڑا وصف لطف و کرم اور محبت ہے۔ اسلامی تعلیمات میں آپس کی محبت ،رحم اور پیار کے برتاؤ کی خوب تاکید کی گئی ہے۔ اسلام میں تو ساری مخلوق کو خدا کا کنبہ مانا گیا ہے اور تمام مخلوق کے ساتھ نیکی،شفقت اور بھلائی کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے باہمی محبت اور شفقت دونوں فریقین کو قوت بخشنے کا عمل ہے۔ کسی کے ساتھ محبت کرنا گویا اپنے اندر محبت کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ اسی حسن سلوک سے ہم انسانی صفات کی تجسیم کرتے ہیں جو ہمارے اندر موجود ہوتی ہیں اور پھر دوسرے کی صفات سے مل کر مکمل تجسیم کا سفر طے کرتی ہیں۔اگر ہم اپنی ذات سے محبت کرنا چھوڑ دیں تو وہ صفات جو ہماری ذات کے اندر موجود ہیں،وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔ ایسے میں جو صرف اپنے فائدے اور غرض سے تعلق استوار کرے گا،وہ رشتہ محض بیوپاری ہوگا۔
اس میں پیار و محبت کی کوئی صفت نہیں ہوگی۔ اس لیے اپنی ذات سے محبت کرنے یا کسی حد تک خود پسندی کو خود غرضی نہیں کہا جا سکتا کہ خود غرض انسان کچھ تخلیق کرنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بادشاہ، ڈکٹیٹر اور جاگیردارانہ ذہن اپنے ہر حکم کو منوانا،دوسروں کو ہیچ سمجھنا اور محکوموں پر جبر وتشدد کرنا ،اُن کا شیوہ ہوتا ہے۔ایسے لوگوں میں محبت کرنے کی استطاعت ہی نہیں ہوتی۔یہ خود پرستی اور نرگسیت کا وہ رحجان ہے جو اِنہیںاپنے منافع ،مفاد اور تعریف کے حصول میں مبتلا کیے ہوتا ہے۔ اس قسم کی سوچ کو فاشزم اور آمریت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاںیہ سوچ اب بہت سے طبقوں میں پائی جاتی ہے۔ مذہبی جنونیت بھی اس کی ایک مثال ہے ۔یہ خدا کو بھی صرف قہار اور جبار ہی سمجھتے ہیں اور محبت بھری اطاعت کی بجائے خوف کے مارے اس کے سامنے جھکتے ہیں۔اس لیے یہ سب لوگ خود غرضی کے بہترین نمونے ہوتے ہیںجبکہ صوفی، اولیاء اور انبیائے کرام اپنے اللہ کو کار ساز اور حاجت روا سمجھتے ہوئے اس کی اطاعت کرتے ہیں،عقیدۂ توحید کو دل میں بسائے اس کی رحمتِ بے پایاں سے فیض پانے کو سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اسی لیے تو وہ اللہ کے حبیب کہلاتے ہیں۔