مذاکرات ہی حل ہے

وزیر اعظم عمر ان خان کے بقول حکومت اورکالعدم تحریک طالبان پا کستان کے مابین مذاکرات چل رہے ہیں اس امر کا انکشاف موصوف وزیر اعظم نے ترکی کے ایک نشریا تی ادارے ٹی آر ٹی کو ایک انٹرویو دیتے وقت کیا ، عمران خان نے بتایا کہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے چل رہی ہے ۔ افغانستان ہمیشہ سے پاکستان حکومت مخالفین کے لیے پناہ گا ہ بنا رہا ہے جب سوات میں ٹی ٹی پی کے خلا ف آپریشن ہو ا تو ان کی اعلیٰ قیا دت سمیت ایک کثیر تعداد افغانستان جا کر پنا ہ گیر ہوگ، بلو چستان صوبہ سے تعلق رکھنے والے بھی حکو متی مخالفین اکثر بیشتر افغانستان کی سرزمین ہی استعمال کر تے رہتے ہیں اس کی واحد وجہ یہ رہی ہے کہ سوائے طالبان کے دور کے باقی تما م سابقہ افغان حکومتیں ان افراد کے لیے اعانت مجرمانہ رہی ہیں ، تحریک طالبان افغانستان اور تحریک طالبان پاکستان کی آپس میں کوئی انس و موودت نہیں پائی جاتی تحریک طالبان پاکستان نے جب جنم لیا تو انھوں نے اپنی تحریک کا نا م افغان طالبان سے تطابق اس لیے کیا کہ ایک تو دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ طالبان ہی ہیں جو جہد مسلسل کر رہے ہیں دوم ان کی ہمدردیا ں حاصل کرنے کا ڈھونگ بھی تھا یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کسی لمحہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو افغان طالبان سے نہیں جوڑا علا وہ ازیں تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں اس وقت پنا ہ ملی جب امریکا افغانستان پر اپنا تسلط براجما ن کیے بیٹھا تھا چنا نچہ طالبان افغانستان نے اپنی فتح کے بعد ٹی ٹی پی سے متعلق استفسار پر شفا ف مئو قف دیا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اپنا مسئلہ ہے اس کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ چنانچہ اب یہ توقع ہو چلی ہے کہ حکومتی امور میں بھی وہ مزاج سے کرختی کو نکال باہر کریں گے اور قومی امو ر کے سلسلہ میں قوم کو لے کر چلیں گے حزب اقتدار ہی قوم کی پوری طر ح نمائندہ قرا ر نہیں پاتی ہے اگر حکومت ستر اسی فیصد عوام کی نمائندگی کرتی ہے تو بیس تیس فیصد عوام کی نمائندگی حزب اختلا ف کو حاصل ہوتی ہے بعض اوقات تو یہ فرق بہت کم رہ جا تا ہے جیسا کہ ہنو ز محسو س کیا جا رہا ہے، تحریک طالبان پاکستان نے جو کارروائیاں افغانستان سے بیٹھ کر کی ہیں وہ اپو زیشن سے اختلا ف رائے سے زیا دہ سنگین بلکہ سنگین تر ہیں جہاں قومی مفاد کا یہ تقاضا ہے کہ ایسے گروہ سے بات چیت کر کے سبھاؤ کا راستہ نکالا جائے وہا ں یہ بھی تقاضا ہے کہ حزب اختلا ف سے کرسی سے کرسی ملا کر قومی مفادات کا تحفظ کیا جائے ۔وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے کافی سارے لوگ چیں بچیں ہیں اور اعتراضات کی بوچھاڑ لگا رہے ہیں مگر ان کا ملک اور قوم کے مستقبل سے کوئی علاقہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں جو وحشیا نہ کارروائیاں کیں ان سب کے تانے بانے افغانستا ن کی سرزمین سے ہیں جڑ تے ہیں چاہے وہ پشاور کے آرمی اسکول کے معصوم بچوں پرشرمناک حملہ ہو ۔ علا وہ ازیں امریکا جو طالبان سے خود تو مذاکر ات کر تا رہا مگر اس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کو ہمیشہ ہی سبو تاژ ہی کیا ہے ، یہ 2013ء کی بات ہے کہ جب حکومت پاکستان کی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت شروع ہوئی تھی کہ امریکا نے یکم نو مبر 2013کو ایک ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسو د کو ہلا ک کر دیا جس کے بعد پاکستان کو پھر عسکر ی آپریشن کی طر ف پلٹنا پڑا تھا ، اس ٹی ٹی پی کی وجہ سے قبائلی عوام کی زندگی بڑی اجیر ن ہو گئی تھی اور وہ اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہو کر رہ گئے ، چنا نچہ اس میںکوئی باک نہیںہے کہ جب سے افغانستان میں ٹی ٹی پی پنا ہ گیر ہوئی ہے ، افغان طا لبان کی جانب سے اس اعلا ن کے بعد کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلا ف استعمال نہیں ہو نے دیا جائے گا ، اس سے کانوں پڑی بات ٹی ٹی پی کی سمجھ آگئی ہے کہ افغانستان سے امریکیوںکے انخلا ء کے بعد افغانستان ان کے لیے فردوس بریں نہیں رہا ۔داعش کو بھی یہ عقل آچکی ہے کہ اب ان کو فضائی چھتری حاصل ہونے کے وسیلے مٹ چکے ہیں ، کیوںکہ دوحہ معاہد ے میں بھی یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلا ف استعمال نہیں کی جائے گی ، افغان طالبان کے اس اعلان کے بعد سے ٹی ٹی پی ، داعش ، اور دیگر دہشت گرد وں کی کمر میں بل پڑ گیا ہے اور ان میںکچھ کرنے کی کوئی سکت باقی نہیں رہی ہے ،جب کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اب ٹی ٹی پی کو کوئی دوسرا راستہ نہیں سجھائی دے رہا ہے جس پر ان کے دہشت گرد تیزی کے ساتھ داعش میں شامل ہو رہے ہیں، داعش بھی کسی کی پشت پناہی کی بناء پر اپنی عسکری قوت بڑھانے کے لیے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو دھڑا دھڑ شامل کرنے مگن ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی خبر ہے کہ افغان طالبان جو اندرون ملک بغاوت کو بڑے سلیقے سے کچلنے میں کامیا ب ہو ئے ہیں اب وہ ان دہشت گردوںکو چن چن کر ٹھکا نے لگا رہے ہیں ایسے حالات میں پاکستان کو ٹی ٹی پی سے مذاکر ات کی حاجت نہیں ہے تاہم یہ حسن کبیر ہے کہ راہ بھٹکے ہوئے اپنوں کو قدم پر گرانے کی بجائے ان کو گلے لگا کر عزت نفس کے ساتھ جینے کا سلیقہ دیا جائے۔ جو اس معاملے میں حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں لگتا ہے کہ ا ن کو حالات ، سیا ست اور نزاکت کا ادراک نہیں ہے ۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی