mushtaq shabab 7

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

جون ایلیاء نے کہا تھا ”بہت سے لوگوں کو پڑھنا چاہئے مگر وہ لکھ رہے ہیں” کچھ ایسی ہی صورتحال اس سوشل میڈیا نے بنا دی ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے لگ بھگ ہر دوسرا تیسرا شخص دانشور بنا پھرتا ہے اور حالات حاضرہ پر ”ماہرانہ” تبصرے کرتے ہوئے دور کی ایسی ایسی کوڑی لاکر افواہیں پھیلا رہا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، خصوصاً جب سے یہ کورونا وائرس کی وباء پھیلی ہے تب سے بھانت بھانت کی باتیں مشوروں کی صورت پھیلا کر افراتفری پیدا کرنا اس خودساختہ دانشور طبقے نے فرض عین سمجھ لیا ہے اور جہاں سے کوئی نیا ویڈیو، پوسٹ یا پھر وائس میسج ملتا ہے اسے جھٹ اپنے ”حلقہ اثر” (یعنی اپنے اکاؤنٹ میں موجود لوگوں) کے اکاؤنٹس کو فارورڈ کر کے ایسا سمجھ لیتا ہے گویا انہوں نے ”جہاد” کر لیا ہے، میں ایسے لوگوں کے خوف سے اپنے موبائل پر نیٹ کھولنے سے بہت گھبرا جاتا ہوں، حالانکہ بعض اوقات یہ بہت ضروری بھی ہوتا ہے کہ بعض اہم خبریں، معلومات حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے مگر جیسے ہی نیٹ کھولتا ہوں، بے شمار گھنٹیاں بجنا شروع ہو جاتی ہیں، جن میں فیس بک، یوٹیوب، وٹس ایپ، ٹویٹر اور میسنجر کے اپلیکیشنز پر ہندسوں کی بھرمار ہو جاتی ہے، ان میں سے ہر دوسرے تیسرے میسج میں ایک ہی ویڈیو کلپ، پوسٹ اور وائس میسج شامل ہوتی ہے، سب سے زیادہ پریشان میں واٹس ایپ میسج سے ہوتا ہوںاور اگر اپنے دل کی بات کہوں تو آج تک جتنے لوگوںنے وائس میسج بھیجے ہیں ان میں سے شاید ایک فیصد بھی کھول کر نہیں سنے، مجھے جو فرینڈ ریکوسٹ کے پیغامات ملتے ہیں ان کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جن میں ریکوسٹ کرنے والے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اسلئے میںمعذرت کر کے انہیں قبول نہیں کرتا، مگر جن کو قبولیت کا پیغام بھیج دیتا ہوں وہ فوراً ہیلو، ہائے، کیسے ہیں آپ؟ کہاں کے رہنے والے ہیں اور اسی قبیل کے فضول سوالات ارسال کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ میں کئی بار فیس بک پر یہ پیغام دے چکا ہوں کہ میں چیٹنگ نہیں کرسکتا اور اگر کسی کو چیٹنگ کا بہت شوق ہے تو وہ کسی اور ”دروازے” پر دستک دے مگر یہ پھر بھی باز نہیں آتے، اس لئے مجبوراً ایسے لوگوں کو ان فرینڈ کرکے جان چھڑا لیتا ہوں، یہ بھی نہیں کہ میں کسی سے بھی رابطہ نہیں رکھتا، ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں مگر، ہر شخص کیساتھ یہ ”رشتہ” استوار کرنے کا نہ حوصلہ ہے مجھ میں نہ وقت، البتہ چند مخصوص دوستوں سے میرا رابطہ رہتا ہے مگر اس کیلئے میرا ایک کلیہ ہے یعنی بقول شاعر
ظرف پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں، خاموشیاں، گہرائیاں
بات چلی تھی ایسے ”خودساختہ” دانشوروں کی جو آج کل سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور لوگوں کو مفت کے تجزیئے، مشورے دیکر خود کو نمایاں کر رہے ہیں، ان لوگوں میں ایسے بھی شامل ہیں جنہیںلکھنے کا شوق تو ہے مگر جیسا کہ کالم کے ابتداء میں جون ایلیاء کا قول درج کر کے ان کی حقیقت واضح کر دی تھی تو ان کے بارے میں مزید یہ بات بھی لکھنے دیجئے کہ اکثر ایسے لوگ سینئر کالم نگاروں سے رابطہ کر کے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ انہیں بھی کالم لکھنے کا شوق ہے اور یہ کہ ساتھ ہی وہ یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ ان کی مدد کی جائے یعنی ان کے کالموں کے شائع کروانے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا جائے۔ دراصل ایسے لوگوں کو اخبار کے ذریعے راتوں رات ”شہرت” کے مینار پر چڑھ کر خود کو نمایاں کرنے کا شوق ہوتا ہے، اب انہیں کون سمجھائے کہ حضور اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں اور کالم لکھنے کیلئے کالم پڑھنے سے بھی زیادہ خبروں کی تکنیک سے باخبر ہونا لازمی ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1965ء میں بطور عامل صحافی جب میں نے میدان صحافت میں قدم رکھا تو پہلے بطور سب ایڈیٹر خبروں کی نوک پلک سنوارنے کا کام سیکھا، پھر رپورٹنگ کی طرف آیا اور بہت بعد میں اپنے ایک سینئر مرحوم احسان طالب کے کہنے پر کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے شعبے میں ”منہ ماری” شروع کردی تھی، مگر آج دوچار اخبارات پڑھ کر لوگ سیدھے سیدھے کالم نگاری کے شعبے میں چھلانگ لگا دیتے ہیں اور پھر تجزیہ نگاری شروع کرکے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جن لوگوں کو ڈمی اخبارات کے صفحات میں کسی نہ کسی طور جگہ مل جاتی ہے وہ اپنے یہ انٹ شنٹ کالم فیس بک پر بھی لگا دیتے ہیں اور پھر ان کے دوستوں کا ایک بریگیڈ ان کالموں پر تعریفوں کے ڈونگرے برسا کر انہیں بانس پر چڑھا دیتے ہیں جس کے بعد یہ سوشل میڈیا پر تبصرہ نگاری سے بعض صورتوں میں غلط معلومات پر مبنی ”فساد” پھیلانا شروع کر دیتے ہیں، ایسے ہی صرف کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے حوالے سے بھی نہیں ہوتا بلکہ ادب کے دوسرے شعبوں میں بھی ایسے ہی برخود غلط افراد سرگرم رہتے ہیں اور شاعری کے نام پر جو یاوہ گوئی کرتے ہیں، نہ بحر کا پتہ، نہ ندرت خیال نہ قافیہ ردیف کا علم بس خود کو شاعر کہلوانے کا شوق اور اب تو ان لوگوں کا کام اس کم بخت نثری نظم نے آسان کر دیا ہے اور جسے پابند شاعری سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا وہ ”مادر پدر آزاد شاعری” کے نام پر نثری نظم کہہ کر خود کو شاعر کہلوا لیتا ہے حالانکہ ایسے لوگوں کے بارے میں میرے ایک مرحوم دوست نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ
اس کا فن سے بھی کچھ تعلق ہے
صرف الفاظ کا ہی میل نہیں
اور کچھ شغل کیجئے صاحب
شاعری چھوکروں کا کھیل نہیں
ہر شعبے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، مگر اس کم بخت سوشل میڈیا نے ان تقاضوں کو پس پشٹ ڈال کر جسے بھی دیکھو ادیب، شاعر، افسانہ نگار، کالم نگار اور تجزیہ کار بنا دیا ہے، مرزا غالب نے اسی لئے تو کہا تھا
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

مزید پڑھیں:  واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے