Maryyam galani

بندی خانے ‘انسانی حقوق اور غیر قانونی رہائشی

حکومت تعلیم ‘ صحت ‘ ترقی نسواں سمیت مختلف ترقیاتی کاموں اور شہری مسائل کے حل کے لئے ضرور کوشاں ہے مگر وطن عزیز میں انسانی حقوق کا معاملہ جس طرح توجہ کا متقاضی ہے بدقسمتی سے اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جاتی سرکاری شعبے میں ہو یا معاشرتی طورپر’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے جو بے حسی پائی جاتی ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور این جی اوز کی بھی نمائشی صدائیں لگتی ہیں کچھ کو فنڈز چاہئے ہوتے ہیں اور کچھ کو توجہ کی طلب ہوتی ہے سنجیدگی کا عنصر کم ہی دیکھنے میں آتا ہے آزاد انسانوں کی دنیا کو معاشرے کی ضمیر پر چھوڑتے ہوئے آج کے کالم میں قیدیوں کے مسائل اور ان کے حقوق کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتی ہوں قیدی گوانتاناموبے کا ہو یا پھر خیبر پختونخوا کی کسی جیل کا قیدی حقوق سبھی کے پامال ہیں کہنے کو تو انسانی حقوق کی بات اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے لیکر امریکی پارلیمان اور برطانوی دارالعوام غرض ہر جگہ انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے مگر قیدیوں کو خطا کار انسان کا ابھی درجہ نہیں ملا ہمارے ہاں کسی پر الزام ہی لگ جائے تو معاشرے سے لیکر نظام تک سبھی اس کے بیری ہوجاتے ہیں یہیں سے ایک اچھا خاصا تعلیم یافتہ ملزم خود میں اور بستہ ب کے بدمعاش میں فرق محسوس نہیں کرتا اس لئے کہ دونوں سے یکساں سلوک ہوتا ہے بلکہ دوسرے سے ممکن ہے بہتر سلوک خرید بھی لے اور یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں چونکہ بستہ ب کا بد معاش اس ماحول کا طفیلی ہوتا ہے اس لئے تعلیم یافتہ ملزم کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کے اطوار اپنا لے اور نظام میں جینے کی راہ نکالے ۔ جیلوں میں قیدیوں سے اچھے سلوک کی تو بات ہی نہ کرنے کی ہے کم از کم ان کو انسان تو سمجھا جائے انہوں نے جو قصور کیا ہوتا ہے اس کی سزا تو عدالت دیتی ہے مگر اس قیدی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں اس کی ضمانت تو عدالت سے بھی نہیں ملتی۔ایک قیدی کی برقی پیغام کے مطابق کوہاٹ جیل سے ایک قیدی نے سیشن جج سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے صاف کہا کہ وہ جیل کے دورے کے باجود قیدیوں کی بعض شکایات و مشکلات کے حل سے معذور ہیں صاف گوئی سے کوئی اپنی مشکل سے آگاہ کرے تو صاف گوئی سے جواب پر افسوس کم ہوتا ہے اسی طرح ہری پور جیل سے بھی قیدیوں سے سلوک بارے اچھی رپورٹ نہیں بڑی شکایتیں ہیں دوسری جیلوں میں بھی ظاہر ہے ایسا ہی ہو گا چترال کی جیل میں بھی اگر صورتحال مختلف نہ ہونے کی شکایت ملی ہے تو دوسرے اضلاع کی جیلوں میں قیدیوں کی حالت زار ماتم کا متقاضی ہے چترال میں پست درجے کی خالی آسامیوں پرغیر مقامی افراد کی تقرری کی بھی برقی پیغام میں شکایت کی گئی ہے ساتھ ہی ساتھ چترال کی سرکاری رہائش گاہوں پر غیر قانونی قابضین کی ڈپٹی کمشنر چترال کے دفتر کی ملی بھگت سے قابض ہونے کی تفصیلی نشاندہی کی گئی ہے سرکاری رہائش گاہ کا استحقاق قانون کے مطابق ٹرانسفر کے چھ ماہ کے اندر پوری ہو جاتی ہے یہاں سالوں گزرنے کے باوجود مکانات خالی نہیں کی جاتیںیا جن کو ملی بھگت کی بناء پر خالی کروانے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی ایک مکان کا مکین سال قبل اپر چترال ٹرانسفر ہو چکا ہے مگر گھر خالی نہیں کرتا سی اینڈ ڈبلیو کے کلرک سے ڈی سی تک مکان خالی نہیں کروا سکتا اے ڈی سی کا قریبی عزیز ٹرانسفر ہو تو ان سے کوئی بھی نہیں پوچھ سکتا کہ کس استحقاق کے تحت گھر رکھا ہوا ہے اسی طرح ان کے ایک اور عزیز کے پاس بھی گھر ہونا ظاہر ہے اے ڈی سی کا استحقاق ہے ۔ کم تنخواہ دار سرکاری ملازمین جو اوپر کی آمدن نہیں رکھتے یا لقمہ حرام سے اجتناب کرتے ہیں وہ کرائے کے گھر لے نہیں سکتے اور سرکاری گھر ان کو ملتا نہیں سرکاری گھر کا مجھے بھی اتفاق سے تجربہ ہے بندہ خود تگڑا ہو یا قریبی عزیز بااثر ہو تو الاٹ نہ بھی ہو تو بندہ قبضہ کر سکتا ہے مگر ہر سرکاری ملازم کو اس طرح کے مواقع نہیں ملتے ۔ ڈی سی لوئر چترال کو شاید ہی فرصت ہو کہ وہ اس طرح کے چھوٹے کاموں پر توجہ دیں وزیر اعظم تو لوگوں کو اپنے گھردینے کا وعدہ کرتے ہیں وزیر اعلیٰ اور وزیرہائوسنگ اسی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیںپست سطح پر ناانصافی ہو تو ان کا کیا قصور؟ ریسکیو آپریشنل سائیڈ کے کورنا سٹاف کے آٹھ سو افراد کو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے خدمات کی انجام دہی کے باوجود معاوضہ نہیں ملا۔برقی پیغام میں دیہاڑی کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ ان کی سروس باقاعدہ نہیں محکمے اور نظامت کے نام میں بھی ابہام ہے بہرحال حکومت اور متعلقہ حکام کو تو بخوبی علم ہو گا کہ مسئلہ کیا ہے ۔ کورونا سے برسرپیکار عملے کو تنخواہیں اور معاوضہ نہیں ملے گا تو وہ کام کیا کریں گے جتنا جلد ممکن ہو ان کو معاوضہ ادا کیا جائے حکمران دعوے کرتے ہوئے کبھی کبھار اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا بھی خیال کیا کریں تو اس طرح کی شکایات کی نوبت کم ہی آئے گی۔
مسائل اور مشکلات کی کئی شکایات غیر واضح اور مبہم ہونے کے باعث کالم کا حصہ نہیں بنتے شکایت کنندہ بے شک نام ظاہر نہ کرے مگر علاقے ‘ مسئلے مشکل اور شکایات تو کم از کم واضح طور پر مختصر ہی لکھے تو شامل کالم ہونا یقینی ہو گا۔ قارئین کرام اس کا خیال رکھ کر برقی پیغامات بھیجیں گے تو آسانی ہو گی۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں۔
٭٭٭

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟