musadiq guhman

قرارداد پاکستان کے محرکات کیا تھے؟

1939ء کے انتخابات کے نتائج آل انڈیا مسلم لیگ کیلئے مایوسی کا باعث تھے۔ مسلم لیگ کی ناکامی دیکھ کر یہ تاثر گہرا ہوا کہ یہ صرف اپرکلاس مسلمانوں کی حکمت عملی تھی۔ علامہ اقبال نے28مئی1937ء کو قائداعظم کو جو خط لکھا اُس میں بھی مسلم لیگ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ مسلم لیگ کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس نے اپرکلاس مسلمانوں کی نمائندگی کرنی ہے یا پھر عام مسلمانوں کی جنہوں نے اب تک مسلم لیگ کی پالیسی کو تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے خط میں لکھا کہ جب تک مسلم لیگ عام مسلمانوں کی حالت زار بدلنے کیلئے کوئی پروگرام وضع نہیں کرتی یہ کبھی کامیاب نہ ہو گی۔ اسی خط میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت زار بدلنے کیلئے اسلامی قانون کے نفاذ کی بات کی اور نفاذ اسلام کیلئے ایک آزاد اور مسلم ریاست کی ضرورت پر زور دیا۔ قائداعظم نے اپنے جوابی خط میں علامہ اقبال کے خیالات سے مکمل اتفاق کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی بعض عملی مجبوریوں کی بابت اپنا مؤقف بیان کیا۔ ایک الگ وطن کا مطالبہ مختلف جماعتوں کی طرف سے پہلے بھی پیش کیا جا چکا تھا لیکن مسلمانوں کی جانب سے اس مطالبے کو پذیرائی نہ مل سکی تھی۔ جماعت الاحرار نے ”حکومت الٰہیہ” جبکہ خاکسار ”خلافت” کا تصور پیش کر چکے تھے لیکن انہیں مسلمانوں کی وسیع تر حمایت سے محروم رہنا پڑا۔ 1937ء کے انتخابی نتائج کے بعد قائداعظم نے پہلا کام مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا کیا۔ قائداعظم نے لکھنؤ اجلاس میں جو تقریر کی اس کی سب سے اہم بات وہ اپیل تھی جو انہوں نے مسلمانوں کو منظم ہونے کیلئے کی’ قائداعظم نے کہا کہ سیاست کا مطلب ہے ”طاقتور ہونا” ناکہ انصاف کرنے اور خیال رکھنے کی دہائیاں دینا۔ گاندھی نے ان الفاظ کو ”ایکٹ آف وار” قرار دیا لیکن بقول قائداعظم یہ ”سیلف ڈیفنس” تھا۔ کانگریس نے اپنی وزارتوں کو جن خطوط پر چلایا اور کانگریسی رہنماؤں نے اقتدار ملنے کے بعد اپنی گفتگو میں جو اسلوب اختیار کیا اُس کو دیکھتے ہوئے یہ انتظام درحقیقت سیلف ڈیفنس ہی تھا۔ سات صوبوں میں کانگریسی وزارتوں کے اطوار دیکھ کر قائداعظم نے گاندھی جی سے فوری طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا کہا تھا لیکن گاندھی نے جواب دیا تھا کہ ”کاش میں کچھ کر سکتا’ اور یہ کہ میں اس معاملے میں بالکل بے بس ہوں۔” کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں کر دی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد کانگریس کو پورے ہندوستان پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنے کا موقع مل گیا تو مسلمان شودروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے
1937ء کے انتخابات کے بعد تین اہم عوامل نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی اور قرارداد پاکستان کا مؤجب بنے۔ اول’ مسلم لیگ کی پالیسی میں جوہری تبدیلی۔ دوم’ اس تبدیلی کے تناظر میں لکھنؤ اجلاس میں مسلمان قیادت کا وسیع تر اتحاد۔ سوم’ کانگریسی وزارتوں کا کردار۔ بعض احباب اپنے دلائل کا مرکزی نکتہ کانگریسی وزارتوں کو بنا کر قیام پاکستان کو ایک ردِعمل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ اکھنڈ بھارت کی سوچ رکھنے والے کئی ہندوستانی دانشور خاص طور پر یہ نکتہ اُٹھاتے ہیں اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر دانستہ حملہ آور ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کسی ردِعمل کا نتیجہ نہیں ہے، پاکستان کی راہ کانگریسی وزارتوں کی مسلمان دشمن اور ہندو نواز پالیسیوں نے ضرور ہموار کی مگر پاکستان جس سوچ کے تحت معرض وجود میں آیا وہ یہ تھی کہ مسلمانان برصغیر کو اپنے لئے ایک الگ خودمختار مملکت کی ضرورت تھی جہاں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق آزادانہ اپنی زندگی گزار سکتے۔ متحدہ ہندوستان میں یہ ہونا ممکن نہ تھا لہٰذا پاکستان کی صورت میں ایک الگ ریاست کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کا خواب بن گیا۔ مطالبہ پاکستان کا تجزیہ کرتے ہوئے غیرجانبدار مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسلم لیگ کو زبردست قوت بنانے میں جناح صاحب کی اعلیٰ انتظامی صلاحیت کا تعلق ہے اور نہ ہی کانگریس کے بُرے اقتدار کا’ درحقیقت پاکستان کے مطالبے نے مسلمانوں کو جہاں درخشاں ماضی کی یاد دلائی وہیں مستقبل میں عظمت کے خیال نے انہیں سرشار کر دیا اور وہ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ وہ مسلم لیگ جس کے ممبران کی تعداد 1927ء میں 1330تھی اب 1944ء میں اُسی مسلم لیگ کے پاس 20لاکھ ممبر تھے۔ پاکستان مسلمانوں کیلئے ایک ”ڈریم ایمپائر” تھی’ یہ الفاظ بیورلے نکسن کے ہیں جنہیں زیڈ اے سلہری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس ڈریم ایمپائر کی بابت ہیکٹر بولیتھو نے ”جناح’ کریٹر آف پاکستان” میں لکھا ہے کہ 23مارچ کو قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد قائداعظم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”اقبال ہم میں نہیں ہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل وہی کیا ہے جو وہ ہم سے چاہتے تھے۔” اقبال کیا چاہتے تھے، ایک الگ مسلمان ریاست کا قیام جہاں مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کی تعمیر کرتے اور جہاں اسلامی قوانین کے نفاذ سے ان کی زندگیوں میں خوشیاں اور خوشحالی آتی۔
8مارچ 1944ء کو علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے اس بات کو تقریباً واضح کر دیا کہ قیام پاکستان کے محرکات کیا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان ہندوؤں کے اچھے یا برے طرزعمل کا نتیجہ نہیں ہے’ پاکستان ہمیشہ سے وجود رکھتا تھا کیونکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا اکٹھے رہنے کے باوجود کبھی آپس میں اختلاط نہیں ہو سکا’ یہ ہمیشہ سے دو الگ قومیں تھیں۔”

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟