logo 9

نجی تعلیمی اداروں کے مطالبات اور ذمہ داری

تعلیمی اداروں کی تعطیلات میںمزید توسیع کی کتنی ضرورت پڑ سکتی ہے اس سوال سے قطع نظر ابھی تعطیلات کو دو ہفتے ہی گزر چکے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں نے حکومت سے مالی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ نجی تعلیمی اداروںکی درجہ بندی کی جائے تو اس کو پست درجے کے سکول،اوسط درجے کے سکول اور بھاری فیسوں کی وصولی کرنے والے اداروںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پست درجے کے سکولوں کی کم فیس اور کرائے کے مکانات میں قیام کے باعث ان کی مشکلات کا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے لیکن علاوہ ازیں کے نوع کے سکول اگر کرائے کی عمارتوں میں بھی قائم ہیں تو ان کے پاس پس انداز رقم اتنی ہوسکتی ہے کہ وہ مہینوں اپنے عملے کو تنخواہوں اور کرایہ کی بآسانی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ نجی سکولوں کی درجہ بندی کے تناظر میں اگر حکومت کسی امدادی رقم کا فیصلہ کرتی ہے تو درجہ بندی اور معیار میں پست سطح کے سکول ہی فنڈ کے حقدار قرار دیئے جانے چاہئیں۔نجی سکولوں کے مالکان اپنے طلبہ کو اگر آن لائن تدریس کی سہولت فراہم نہیں کرسکتے تو جس طرح ہر طالب علم کے سرپرست کو فیسوں کی ادائیگی کی یاد دہانی کے پیغامات بھجوائے جارہے ہیںاسی ذریعے سے طالب علموں کو تدریسی ٹاسک بھی دے سکتے ہیں۔ نجی سکول مالکان کو فیسوں کی ادائیگی میںتعجیل کیساتھ ساتھ طالب علموں کی تعلیم میں حرج کو کم سے کم کرنے کیلئے بھی اقدامات پر توجہ دینی چاہئے جن سکول کے بنک اکائونٹس نہیں ان کو حکوت بنک اکائونٹ کھولنے کا پابند بنائے اور سکولوں کے دفاتر کھولنے کی اجازت دینے کی بجائے ان کو فیسوںکی بنکوں کے ذریعے وصولی کا پابند بنائے۔
گھروں میں پتنگ سازی کے مراکز کیخلاف کارروائی کی ضرورت
تعلیمی اداروں کی تعطیلات اور گھروں میں رہنے کی قید کے باعث پتنگ اُڑانے کے خطرناک شغل اختیار کرنے والے بچوں اور نوجوانوں کو اس عمل سے روکنے کی ذمہ داری جہاںوالدین پر عائد ہوتی ہے وہاںانتظامیہ کی ذمہ داری پتنگ فروخت کرنے والوں کی روک تھام پر توجہ کی بھی ہے ۔پتنگ کی بڑے پیمانے پر تیاری اور فروخت کے مراکز اب بازار نہیں بلکہ گھر گھر اس کی تیاری وفروخت جاری ہے، جن کی روک تھام سرکاری اداروں کیلئے یقینا مشکل امر بن گیا ہے لیکن اگر حکام چاہیں تو پتنگ تیار کرنے کے سازوسامان کی ترسیل وتجارت اورپتنگ بنانے والوں کیخلاف کارروائی زیادہ مشکل بھی نہیں۔ گھروں میں پتنگ سازی وفروخت کا ایک سنگین خطرہ گھروں کے اندر جا کر پتنگ خریدنے والے بچوں کو درپیش خطرات ہیں جس کا ادراک وتدارک اسی صورت ہی میں ممکن ہوگا جب گھر میں پتنگ سازی اور اس کی فروخت کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔توقع کی جانی چاہئے کہ انتظامیہ اپنی دیگر مصروفیات کیساتھ ساتھ اس مسئلے پر بھی توجہ دے گی اور پتنگ سازی کے ان گھریلو مراکز کیخلاف ہر تھانہ کی سطح پر اقدامات کئے جائیں گے۔ ان مراکز کی بچوں سے باآسانی معلومات مل سکتی ہیں یا پھر گھر سے پتنگ لینے کیلئے جمع ہونے والے بچوںاور پتنگ خرید کر جانے والے بچوں کی قطاروں سے ان گھروں کی نشاندہی ممکن ہے۔پولیس چاہے تو بآسانی کارروائی کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان