سائنس ڈپلومیسی

سائنس اور سفارتکاری میں بظاہر بنیادی تضادات ایسی سرگر میوں کیلئے عدم مطابقت کا باعث ہیں جن کے تحت سائنس اور سفارتکاری باہمی فائدے کے لیے مل کر سکیں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ ان تضادات کے باوجود عصرحاضر کی عالمی سیاست کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں سائنس اور سفارتکاری نے وسیع پیمانے پر فائد مند پالیسیوں کے تحت موثر طریقے سے تعاون کیا ہے۔ ان پالیسیوں کو بسا اوقات سائنس ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ سائنس اور سفارتکاری کے درمیان تضادات کو ان دو بنیادی اصولوں میں دیکھا جا سکتا ہے،جیسا کہ سائنس کو عموماً کائنات سے متعلق حقائق کے علم کا ایک ایسا جزو سمجھا جا سکتا ہے جو عقلیت، مشاہدے اور تجربات کے ذریعے سیکھا جاتا ہے۔ اس قسم کے علم کی تخلیق کے لیے سب سے موزوں طریقے معروضی اور آفاقی ہیں۔ دوسری طرف سفارتکاری، سائنسی کوششوں سے سرگرمی کا بالکل مختلف انداز ہے۔ سفارتکاری کو دو ملکوں کے درمیان مذاکرات اور دوسرے معاملات کو انتہائی مہارت کے ساتھ نمٹانے کے طور پر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ معروف برطانوی ونسٹن چرچل نے سفارتکاری کو لوگوں کو جہنم میں جانے کا کہنے کا ایسا فن قرار دیا کہ وہ سمت کا خود پوچھیں۔ سفارت کاری کا فن اور مہارتیں حقائق کو سامنے لانے یا ان کی عکاسی کے حوالے سے اُ تنی مرکوز نہیں ہوتیں جتنی سائنسی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔سائنس اور سفارتکاری کے درمیان ایک اور اہم فرق جائزے اور عالمگیریت کی جستجو کا ہے ۔ سفارتکاری کا آغاز سترہویں صدی یورپ کے وسط میں ویسٹ فیلیا امن معاہدے سے ہوا۔ یہی معاہدہ جدید قومی ریاست کی تشکیل میں معاون ثابت ہوا۔ ریاست کا محور خود مختاری ہوتی ہے اور سرحدیں سفارتکاری میں اہم ہوتی ہیں، سرحدیں ریاست کی علاقے اور لوگوں کی بھی نشاندہی کرتی ہیں، جن کے مفادات سفارتکاری کے استعمال میں اہمیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف معروضیت اور داخلی کیفیت اور دوسری طرف آفاقی اور قومی تضادکو مکمل طور پر نظر اندازکرنا مشکل ہے۔ تاریخ سائنس اور قومی حکومتوں میں تعلق کی بھی نشاندہی کرتی ہے جس نے براہ راست بین الاقوامی تنازعات اور تباہی میں حصہ لیا ہے۔ مین ہٹن پروجیکٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی تعمیر اس کی ایک واضح مثال ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ کے دوران حکومتوں نے تقسیم اور تنازعات کو فروغ دینے کے لیے سائنس کا استعمال جاری رکھا۔ خلاء کی دوڑ اور چاند پر اترنے کی جستجو ایسی مثالیں ہیں جہاں سائنس اور خلائی تحقیق ایسا ہدف بنیں جس نے منقسم دنیا میں قومی مقاصد کے حصول کے لیے مدد کی۔ اہم بات یہ ہے کہ کون سے عوامل ایک ضرورت کے تحت سائنس اور سفارتکاری میںباہمی مفادکے لیے اکٹھا کرسکتے ہیں ۔ اگر ہم ان کے اکٹھے ہونے سے مستفید ہونے والوں کا جائزہ لیں تو وہ سائنس اور سائنسدانوں کی عالمگیر برادری ، سفارت کاری اور قومی فائدہ اور مفاد کا حصول دونوں ہو سکتے ہیں۔ سائنس کے لیے فائدہ مند سفارتکاری کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ممالک میں دوسرے ملکوں میں اپنی سائنسی کمیونٹیز کو فروغ دیتے ہیں،اپنے سائنسدانوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔ سائنسی کمیونٹی ان ممالک کے درمیان روابط برقرار رکھنے کے لیے ایک ذریعہ فراہم کر سکتی ہے جن میں کشیدگی ہویا ان کے سفارتی تعلقات ختم ہوچکے ہوں۔ جدید دور میں ، دو عوامل نے سائنس ڈپلومیسی کے فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک یہ کہ عالمگیریت اور باہمی انحصار کے ساتھ ہارڈ پاور(دھمکی ودبائو) کے بجائے سافٹ پاور(تعاون و مدد) کے استعمال کی ضرورت ہے۔ سائنس ڈپلومیسی میں حصہ لینے والا دوسرا عنصر ان مسائل کی عالمی نوعیت ہے جو ریاستوں کو درپیش ہیں، جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی ، پائیدار ترقی ، دہشت گردی اور وبائی امراض ۔جس طرح ماحولیاتی انحطاط کی کوئی سرحد نہیں اسی طرح ماحولیاتی تحفظ بھی ایک ایسا کام ہے جو سرحدوں اور قومی مفادات سے بالاتر ہے۔ امریکہ اور مغرب کے ترقی یافتہ ممالک جدید تعلیم اور تحقیق کے حکومتی فنڈ سے چلنے والے پروگراموں کے ذریعے ترقی پذیر ملکوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسی انسانی وسائل کو راغب کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کو فروغ دیا جاتا ہے اور ان کی مدد کی جاتی ہے حالانکہ سفارتخانے اور ترقی یافتہ ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ انسانی وسائل کی نقل و حرکت کو آسان بناتے ہیں۔ یہ حکومت کے تعاون سے تبادلہ پروگرام ترقی یافتہ ممالک میں سائنسی سرگرمیوں کو براہ راست فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں اور سائنس کی خدمت میں سفارت کاری کی ایک مثال ہیں۔سائنس ڈپلومیسی کا تصور سائنس اور سفارتکاری سے ہی لیا گیاہے ۔اگرچہ یہ دو تصورات مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہیں لیکن ان کو ایسے طریقوں سے جوڑا جاتا ہے جو باہمی طور پر فائدہ مند ہوتے ہیں۔ ان طریقوں میں وہ اقدامات شامل ہو سکتے ہیں جن کے تحت سائنس کو سفارتکاری کے عمل اور سائنس کی خدمت میں سفارتکاری کا استعمال ہو۔سائنس ڈپلومیسی کی پالیسی موجودہ بین الاقوامی سیاست میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ نئی صدی کے کثیرکثیر قطبی عالمی نظام میں کثیرالجہتی اور سافٹ پاور عالمی سیاست کے لیے مئوثر طریقے ہیں۔ یہ حکمت عملی ماحولیاتی ، پائیدار ترقی اور عالمی وبائی امراض کے بین الاقوامی عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی انتہائی موزوں ہے۔
( بشکریہ، دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟